عادل ومنصف کو حق تعالیٰ کی توفیق وتائید حاصل رہتی ہے۔
اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قاضی جب تک ظلم و ناانصافی کی راہ اختیار نہیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے یعنی حق تعالیٰ کی توفیق و تائید اس کے شامل حال ہوتی ہے لیکن جب وہ ظلم وناانصافی کی راہ اختیار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے الگ ہوجاتا ہے (یعنی اس کے اوپر سے حق تعالیٰ کی تائید و توفیق کا سایہ ہٹ جاتا ہے اور شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قاضی جب ظلم وناانصافی کی راہ اختیار کرلیتا ہے تو (اللہ تعالیٰ ) اس کے کام کو اس کے سپرد کردیتا ہے (یعنی اس کو اپنی توفیق و تائید سے محروم کردیتا ہے۔ اور حضرت سعید ابن مسیب راوی ہیں کہ (ایک دن) حضرت عمر فاروق کی خدمت میں ایک مسلمان اور ایک یہودی اپنا جھگڑا لے کر آئے حضرت عمر نے جب (قضیہ کی تحقیق کے بعد) یہ دیکھا کہ یہودی حق پر ہے تو انہوں نے اس (یہودی) کے حق میں فیصلہ دیا اس یہودی نے (اپنے حق میں فیصلہ سن کر) کہا اللہ کی قسم! آپ نے حق کے مطابق فیصلہ دیا ہے حضرت عمر نے (یہ سن کر) اس کے ایک درہ مارا اور فرمایا تجھے کیسے علم ہوا کہ میں نے حق کے مطابق فیصلہ دیا ہے؟ یہودی نے کہا اللہ کی قسم! ہم نے توراۃ میں (یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ جو بھی قاضی حق کے مطابق فیصلہ دیتا ہے اس کے دائیں ایک فرشتہ ہوتا ہے اور اس کے بائیں ایک فرشتہ ہوتا ہے اوہ دونوں فرشتے اس کو تقویت پہنچاتے ہیں اور حق کی توفیق دیتے ہیں جب تک وہ حق پر رہتا ہے اور جب قاضی حق کو چھوڑ کردیتا ہے تو وہ فرشتے آسمان پر چلے جاتے ہیں اور اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ (مالک)
تشریح
ایک خلجان تو یہ واقع ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر نے اس یہودی کو اپنے درے سے کیوں مارا درآنحالیکہ اس نے ان کے فیصلہ کے منصفانہ اور برحق ہونے کا اقرار و اعتراف کیا تھا؟ اور ایک اشکال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر کے سوال تجھ کو یہ کیسے معلوم ہوا الخ اور یہودی کے جواب ہم نے توارۃ میں پایا ہے الخ میں مطابقت کیا ہوئی۔ پہلے خلجان کا جواب تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے یہودی کو کسی سزا یا غصہ کے طور پر نہیں مارا تھا بلکہ نرمی اور خوش طبعی کے طور پر مارا تھا اور دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ اس بات کو یہودی سے زیادہ کون جان سکتا تھا کہ اس تنازعہ میں حق پر کون ہے۔ لہٰذا جب اس یہودی نے دیکھا کہ اگر حضرت عمر حق سے انحراف کرتے تو فریق مخالف یعنی مسلمان کے حق میں فیصلہ کرتے، اس صورت میں ان کا فیصلہ مبنی بر انصاف ہوتا اور نہ ان کا حق پر قائم رہنا ظاہر ہوتا۔ لہٰذا جب انہوں نے مسلمان کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر حق پر قائم ہیں اور انہوں نے انصاف سے انحراف نہیں کیا ہے۔