مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3658
وعن ابن عمر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إن السلطان ظل الله في الأرض يأوي إليه كل مظلوم من عباده فإذا عدل كان له الأجر وعلى الرعية الشكر وإذا جار كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر
بادشاہ روئے زمین پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ بادشاہ روئے زمین پر اللہ کا سایہ ہے جس کے نیچے اللہ کے بندوں میں سے مظلوم بندہ پناہ حاصل کرتا ہے لہٰذا جب بادشاہ عدل و انصاف کرتا ہے تو اس کو ثواب ملتا ہے اور رعایا پر اس کا شکر واجب ہوتا ہے اور جب وہ ظلم و طغیانی کرتا ہے تو وہ گنہ گار ہوتا ہے اور رعایا پر صبر لازم ہوتا ہے۔ بادشاہ کے وجود کو خود کا سایہ اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے جس طرح کسی چیز کا سایہ سورج کی تپش و گرمی کی ایذاء سے بچاتا ہے اسی طرح بادشاہ اپنی رعیت کے لوگوں کو مختلف قسم کی ایذاؤں اور سختیوں سے بچاتا ہے! نیز بسا اوقات لفظ سایہ سے کنایۃ محافظت و حمایت کا مفہوم بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو بادشاہ کے وجود کا بجا طور پر اپنی رعایا کے لئے محافظت و حمایت کا سب سے بڑا ذریعہ ہونا بالکل ظاہر ہے۔ طیبی نے یہ وضاحت کی ہے کہ لفظ ظل اللہ ایک تشبیہ ہے اور عبادت (یاوی الیہ کل مظلوم) الخ اس تشبیہ کی وضاحت اور مراد بیان کرتی ہے یعنی لوگ جس طرح سایہ کی ٹھنڈک میں سورج کی گرمی سے راحت پاتے ہیں اسی طرح بادشاہ کے عدل کی ٹھنڈک میں ظلم وجور کی گرمی سے راحت پاتے ہیں۔ ظل اللہ میں اللہ کی طرف (سایہ) کی نسبت اس (سایہ) کی عظمت و برتری کے اظہار کے لئے ہے جیسا کہ بیت اللہ میں اللہ کی طرف بیت کی نسبت اس (بیت) کی عظمت و برتری کو ظاہر کرنے کے لئے ہے اور اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ سایہ (یعنی بادشاہ) دوسرے سایوں کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے تعلق سے اپنی الگ شان اور خصوصیت و برتری رکھتا ہے کیونکہ اس کو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب) قرار دیا گیا ہے کہ اس کا فریضہ اللہ تعالیٰ کے عدل و احسان کو اس کے بندوں پر پھیلانا ہے۔
Top