مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3654
وعن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال : ما من رجل يلي أمر عشرة فما فوق ذلك إلا أتاه الله عز و جل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه فكه بره أو أوبقه إثمه أولها ملامة وأوسطها ندامة وآخرها خزي يوم القيامة
حکمران کے حق میں حکومت کے تین تدریجی مرحلے
اور حضرت ابوامامہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے (دس آدمیوں کی) بھی یا اس سے زائد لوگوں کی حکمرانی قبول کی اس کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس طرح طوق میں جکڑا ہوا حاضر کرے گا (یعنی میدان حشر میں اٹھائے گا) کہ اس کے ہاتھ نے اس کی گردن کو جکڑ رکھا ہوگا یہاں تک کہ یا تو اس کی نیکی اس کو چھڑائے گی (یعنی اگر اس نے دنیا میں اپنے زیردستوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ اور حسن سلوک کیا ہوگا تو یہ اس کی نجات کا باعث بنے گا یا اس کا گناہ (یعنی اپنے زیردستوں پر اس کا کیا ہوا ظلم وغیرہ ) اس کی ہلاکت (عذاب) میں مبتلا کر دے گا۔ (یاد رکھو) سرداری وحکمرانی کی ابتداء ملامت ہے اس کا درمیان پیشمانی و ندامت ہے اور اس کا آخر قیامت کے دن کی ذلت و رسوائی ہے۔

تشریح
حکومت وسرداری کی حقیقت اور اس کا مآل کیا ہے؟ اس کو یہ حدیث واضح کر رہی ہے کہ جب کوئی شخص حکومت وسیادت کی مسند پر فائز ہوتا ہے تو اس کا ابتدائی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو ہر طرف سے ملامت کے تیر کا نشانہ بننا پڑتا ہے، لوگ مطعون کرتے ہیں کہ اس نے ایسا ویسا کیا، کوئی اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرتا ہے، کوئی خویش پروری اور جننہ داری کی تہمت لگاتا ہے تو کوئی فرائض حکومت کی انجام دہی میں غفلت کا ملزم گردانتا ہے عرضی کہ ہر طرف سے طعن وتشنیع، سب وشتم اور اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی ہے اس کے بعد درمیانی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ حکمران حکومت کی سخت کوشیوں اور لوگوں کے طعن وتشنیع سے بددل ہو کر سخت ندامت وپیشیمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس منصب کو کیوں قبول کیا اور اس محنت و مصیبت میں اپنے آپ کو مبتلا کیا اور پھر اس کا آخری حصہ ذلت و رسوائی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ دنیا کی ذلت و رسوائی بھی اور آخرت کی ذلت و رسوائی بھی! دنیا کی ذلت رسوائی تو یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے اس منصب سے معزول کردیا جاتا ہے تو اس کی خواری و تحقیر ہوتی ہے یا اگر رعایا اس کے طرز حکومت میں اور انتظام سلطنت سے مطمئن نہیں ہوتی تو ان کے دل ان کے دلوں میں اس کے تئیں سخت قسم کی نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک حکمران کے لئے اس سے بڑھ کر دنیا میں ذلت و رسوائی اور کیا ہوسکتی ہے اور آخرت کی ذلت و رسوائی یہ ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں جو کچھ کرتا ہے اس کی جواب دہی احکم الحاکمین کی بارگاہ میں کرنی ہوتی ہے یہاں تک کہ اس سے جو کو تاہیاں، جو ظلم اور جو غلط افعال سرزد ہوئے ہیں ان کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہونا پڑتا ہے۔ ( فاعتبروا یا اولی الابصار)۔ یہاں حدیث میں صرف قیامت کے دن کی ذلت و رسوائی کا ذکر کیا گیا ہے دنیا کی خواری مذکور نہیں ہے اس کی وجہ یہ کہ قیامت کے دن کی ذلت و رسوائی دنیا کی ذلت و رسوائی کہیں زیادہ سخت ہے اسی لئے اس کے ذکر پر اکتفا کیا گیا۔
Top