مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3652
وعن جابر بن سمرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ثلاثة أخاف على أمتي : الاستسقاء بالأنواء وحيف السلطان وتكذيب القدر
حکمرانوں کے ظلم سے آنحضرت ﷺ کا خوف
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں اپنی امت کے حق میں تین باتوں سے ڈرتا ہوں کہ (کہیں وہ ان کو اختیار کر کے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے) ایک تو چاند کی منازل کے حساب سے بارش مانگنا، دوسرے بادشاہ کا ظلم کرنا اور تیسرے تقدیر کا جھٹلانا (یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ تقدیر الہٰی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ انسان جو بھی فعل کرتا ہے وہ خود اس کا خالق ہوتا ہے جیسا کہ ایک جماعت قدریہ کا مسلک ہے۔

تشریح
انواء نوء۔ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی تو اٹھنا اور (گرنا) ہیں لیکن عام طور پر اس کا استعمال چاند کی منازل کے مفہوم میں ہوتا ہے! قدیم علماء فلکیات کے مطابق چاند کی اٹھائیس منزلیں ہوتی ہیں کہ وہ ہر شب ایک منزل میں رہتا ہے غالبًا اٹھنے اور گرنے سے طلوع اور غروب مراد لے کر انواء کو چاند کو منازل کے مفہوم استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال عرب کے مشرکین بارش کو ان منازل کی طرف منسوب کرتے تھے اور جب بارش ہوتی تو وہ یہ کہتے کہ چاند کی فلاں منزل کی وجہ سے بارش ہوئی ہے چونکہ یہ ایک باطل عقیدہ ہے کہ اس لئے دوسری احادیث میں یہ عقیدہ رکھنے سے صریح ممانعت مذکور ہے۔ توحید کی اہمیت کو واضح کرنے اور شرک کے ایہام سے دور رکھنے کے لئے اس پر لفظ کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔
Top