حاکم کی بے راہ روی پر اس کو ٹوکنا ہر مسلمان کی ایک ذمہ داری ہے۔
اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایسے لوگ بھی تم پر حاکم مقرر کئے جائیں گے جو اچھے برے دونوں قسم کے کام کریں گے لہٰذا جس شخص نے انکار کیا (یعنی جو شخص اپنے حاکم کے سامنے زبان سے یہ کہنے پر قادر ہو کہ تمہارا یہ فعل برا ہے اور اس نے اس طرح کہہ بھی دیا) تو وہ نفاق اور مداہنت سے پاک اور (اپنی ذمہ داری سے) بری ہوگیا اور جس شخص نے مکروہ جانا (یعنی جو شخص حاکم کے منہ پر اس کے برے فعل کو بیان کردینے پر قادر نہ ہو لیکن اپنے دل سے اس کے اس فعل کو برا سمجھے) تو وہ سالم رہا) یعنی اس فعل کی برائی و گناہ اور اس کے وبال میں شریک ہونے سے محفوظ رہا) لیکن جو شخص (حاکم کے برے افعال پر دل سے) خوش ہوا اور (خود بھی برے افعال میں مبتلا ہو کر گویا حاکم کی اتباع کی (تو وہ گناہ اور اس کے وبال میں شریک ہوا صحابہ نے عرض کیا کہ (ایسی صورت میں جب کہ حکام برائیوں میں مبتلا ہوجائیں اور ان کی بےراہ روی کا اثر عوام پر بھی پر نے لگے تو) کیا ہم ان کے خلاف جنگ نہ کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں، نہیں! جب تک وہ نماز پڑھیں۔ یعنی جس شخص نے اپنے دل سے برا سمجھا اور اپنے دل سے انکار کیا۔ (مسلم)
تشریح
روایت کے آخری الفاظ یعنی جس شخص نے اپنا دل سے برا سمجھا اور اپنے دل سے انکار کیا کے بارے میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے تو یہ لکھا ہے کہ راوی کی عبارت ہے جس کے ذریعہ انہوں نے حدیث کے الفاظ ومن کرہ فقد سلم کی توضیح کی ہے، جب کہ ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ راوی نے اس عبارت کے ذریعہ حدیث کے ان دونوں جملوں (فمن انکر) اور (ومن کرہ) الخ کی توضیح کی ہے۔