مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3617
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من رأى أميره يكرهه فليصبر فإنه ليس أحد يفارق الجماعة شبرا فيموت إلا مات ميتة جاهلية
ملت کی اجتماعیت میں رخنہ ڈالنے والے کے بارے میں وعید
اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنے امیر و سردار کی طرف سے کوئی ایسی بات دیکھے جو اس کو (شرعًا یا طبعًا) پسند نہ ہو تو اس کو اس پر صبر کرنا چاہئے اور اس کی وجہ سے امام کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند نہ کرنا چاہئے کیونکہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر (بھی) جدا ہوا اور (توبہ کئے بغیر اسی حالت میں) مرگیا تو اس کی موت اہل جاہلیت کی موت کی مانند ہوگی۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے امام و امیر کی اطاعت و فرمانبرداری سے اپنے کو آزاد کرلیا اور مسلمانوں کی جماعت (تنظیم) سے علیحدگی اختیار کرلی اور تمام مسلمانوں کے اجتماع و اتحاد کی مخالفت پر کمر بستہ رہا اور پھر اسی حالت میں وہ مرگیا تو گویا زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی موت مرا اور اس مشابہت کی بنیاد ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ چونکہ دین سے بےبہرہ تھے اس لئے وہ اپنے امیر و سردار کی اطاعت کرتے تھے نہ اپنے امام (رہنما) کی ہدایت کو مانتے تھے بلکہ ان سے وہ علی الاعلان بیزاری کا اظہار کرتے تھے اسی طرح چونکہ ان کے یہاں ملی شیرازہ بندی اور اجتماعی تنظیم کا کوئی اہتمام نہیں تھا اس لئے وہ نہ کسی چیز پر اجتماع و اتحاد کا مظاہرہ کرتے تھے اور نہ کسی رائے پر متفق ہوتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں ملت کی شیرازہ بندی، مسلمانوں کی مضبوط اجتماعی تنظیم، لیڈر شب پر مکمل اعتماد اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اور ملی امور میں آپس میں اتفاق و اتحاد کی بڑی اہمیت ہے بلکہ یہ چیزیں دین کا مطلوب ہیں اور دین کی سربلندی کا بنیادی عنصر ہیں۔
Top