مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3615
وعن عبادة بن الصامت قال : بايعنا رسول الله صلى الله عليه و سلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره وعلى أثرة علينا وعلى أن لا ننازع الأمر أهله وعلى أن نقول بالحق أينما كنا لا نخاف في الله لومة لائم . وفي رواية : وعلى أن لا ننازع الأمر أهله إلا أن تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان (2/335) 3667 - [ 7 ] ( متفق عليه ) وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه و سلم على السمع والطاعة يقول لنا : فيما استطعتم
اطاعت و فرمانبرداری کا عہد
اور حضرت عبادہ ابن صامت کہتے ہیں کہ ہم نے رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی یعنی آپ کے روبرو ان امور کا عہد کیا کہ ہم (آپ کی ہدایات کو توجہ سے) سنیں گے (اور ہر قسم کے حالات میں آپ ﷺ کے احکام کی) اطاعت کریں گے تنگی اور سخت حالات میں بھی اور آسان و خوش آئند زمانہ میں بھی، خوشی کے موقع پر بھی اور ناخوشی کی حالت میں ہم پر ترجیح دی جائے گی (تو ہم صبر کریں گے۔ ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے ہم (جب زبان سے کوئی بات کہیں کے تو) حق کہیں گے خواہ ہم کسی جگہ ہوں (اور کسی حال میں ہوں) اور ہم اللہ کے معاملے میں (یعنی دین پہنچانے اور حق بات کہنے میں) کسی ملامت کرنے والے شخص کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ (ہم نے اس بات کا عہد کیا کہ ہم امر کو جگہ سے نہیں نکالیں گے۔ (چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ امر کو اس کی جگہ سے نہ نکالو) ہاں اگر تم صریح کفر دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے (یعنی قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کی صورت میں دلیل ہو (اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں امر کو اس کی جگہ سے نکالنے کی اجازت ہے۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
ہم پر ترجیح دی جائے گی کا مطلب یہ ہے کہ ہم انصارنے یہ بھی عہد کیا کہ اگر ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے گی ہم صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انصار سے فرمایا تھا کہ (میرے بعد تم لوگوں سے ترجیحی سلوک ہوگا یعنی بخشش و انعام اور اعزاز مناصب کی تقسیم کے وقت تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح و تفصیل دی جائے گی ایسے موقع پر تم لوگ صبر کرنا چناچہ آپ کی یہ پیش گوئی ثابت ہوئی کہ خلفاء راشدین کے زمانے کے بعد جب امراء کا عہد حکومت شروع ہوا تو انصار کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا گیا اور انصار نے بھی آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اور اپنا عہد نباہتے ہوئے اس ترجیحی سلوک کے خلاف شکوہ شکایت کرنے کی بجائے صبر و تحمل کی راہ کو اختیار کیا۔ ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے کا مطلب یہ ہے کہ ہم امارت و حکومت کی طلب و خواہش نہیں کریں گے ہم پر جس شخص کو امیر وحاکم بنادیا جائے گا ہم اس کو معزول نہیں کریں گے اور اپنے امیر وحاکم کے خلاف ہنگامہ آرائی کر کے کوئی شورش پیدا نہیں کریں گے۔ روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر وحاکم کے قول وفعل میں صریح کفر دیکھو تو اس کو معزول کردینے کی اجازت ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا واجب ہوگا۔
Top