مشکوٰۃ المصابیح - شراب کی حقیقت اور شراب پینے والے کے بارے میں وعید کا بیان - حدیث نمبر 3603
وعن أبي سعيد الخدري قال : كان عندنا خمر ليتيم فلما نزلت ( المائدة ) سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم عنه وقلت : إنه ليتيم فقال : أهريقوه . رواه الترمذي (2/331) 3649 - [ 16 ] ( صحيح ) وعن أنس عن أبي طلحة : أنه قال : يا نبي الله إني اشتريت خمرا لأيتام في حجري قال : أهرق الخمر واكسر الدنان . رواه الترمذي وضعفه . وفي رواية أبي داود : أنه سأله النبي صلى الله عليه و سلم عن أيتام ورثوا خمرا قال : أهرقها . قال : أفلا أجعلها خلا ؟ قال : لا
شراب مال متقوم نہیں ہے
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ ہمارے پاس یتیم کی شراب رکھی ہوئی تھی (یعنی ہمارے گھر میں ایک یتیم رہا کرتا تھا جو ہماری پرورش میں تھا اس کی ملکیت میں جہاں اور بہت سا مال و اسباب تھا وہیں شراب بھی تھی کیونکہ اس زمانہ میں شراب مباح تھی) چناچہ سورت مائدہ کی وہ آیت (اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 5۔ المائدہ 90) نازل ہوئی (جس میں شراب کی حرمت کا بیان ہے جو باب حد الخمر کے ابتداء میں نقل کی جا چکی ہے) تو میں نے اس یتیم کی شراب کے بارے میں رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا اور عرض کیا کہ وہ ایک یتیم کا مال ہے (اور چونکہ یتیم کا مال ضائع نہیں کرنا چاہئے اس لئے اب کیا حکم ہے) آپ ﷺ نے فرمایا اس کو پھینک دو۔ (ترمذی)

تشریح
آپ ﷺ نے اپنے ارشاد کے ذریعہ واضح فرمایا کہ شراب متقوم مال نہیں ہے نہ صرف یہ کہ اس سے کوئی نفع حاصل کرنا کسی بھی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کی اہانت کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں اس شراب کو پھینک دینا ہی ضروری ہے۔ اور حضرت انس حضرت ابوطلحہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں (یعنی ابوطلحہ نے) عرض کیا کہ یا نبی اللہ! میں نے ان یتیموں کے لئے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا شراب کو پھینک دو اور اس کے برتن کو توڑ ڈالو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ضعیف قرار دیا ہے۔ تشریح حضرت ابوطلحہ نے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے اپنے زیر پرورش یتیموں کے لئے جو شراب خریدی تھی اس کے بارے میں پوچھا کہ اب شراب حرام ہوگئی ہے میں اس شراب کا کیا کروں؟ آیا اس کو پھینک دوں یا رہنے دوں؟ آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ اس کو بہا ڈالو۔ اس کے ساتھ ہی اس کے برتن کو توڑ ڈالنے کا حکم اس لئے دیا کہ شراب کی نجاست اس میں سرایت کرگئی تھی اور اس کا پاک کرنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ یا یہ کہ آپ نے شراب کی ممانعت میں شدت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ جس برتن میں وہ شراب رکھی ہے اس کو بھی توڑ ڈالو، اسی طرح آپ ﷺ نے اس شراب کا سرکہ بنا لینے سے جو منع فرمایا اس کا تعلق بھی یا تو زجر و تنبیہ سے ہے یا یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔
Top