مشکوٰۃ المصابیح - شراب کی حد کا بیان - حدیث نمبر 3577
وعن ابن عباس قال : شرب رجل فسكر فلقي يميل في الفج فانطلق به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما حاذى دار العباس انفلت فدخل على العباس فالتزمه فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فضحك وقال : أفعلها ؟ ولم يأمر فيه بشيء . رواه أبو داود
ثبوت جرم کے بغیر سزا نہیں
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے شراب پی اور بدمست ہوگیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو راستہ میں اس حال میں پایا کہ وہ جھومتا چلا جاتا تھا جیسا کہ شرابیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نشہ کی حالت میں لڑکھڑاتے جھومتے راستہ چلتے ہیں، چناچہ لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لے چلے، لیکن جب وہ حضرت عباس کے مکان کے قریب پہنچا تو لوگوں کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حضرت عباس کے پاس پہنچ کر ان سے چمٹ گیا یعنی اس نے اس طرح حضرت عباس سے سفارش اور پناہ چاہی جب نبی کریم ﷺ سے یہ بیان کیا گیا تو آپ ﷺ ہنس دیئے اور فرمایا کیا اس نے ایسا کہا اور پھر آپ ﷺ نے اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ (ابو داؤد)

تشریح
آنحضرت ﷺ نے نہ تو اس شخص پر حد جاری کرنے کا حکم دیا اور نہ اس کو کوئی دوسری سزا دی اس کا سبب یہ تھا کہ اس کا شراب پینا نہ تو خود اس کے اقرار سے اور نہ عادل گواہوں کی گواہی کے ذریعہ ثابت ہوا۔ اگر وہ دربار رسالت میں حاضر ہو کر اپنی شراب نوشی کا اعتراف و اقرار کرتا یا گواہوں کے ذریعہ اس کی شراب نوشی کا جرم ثابت ہوتا تو یقینا اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا جاتا۔ اور جہاں تک اس شخص کا راستہ میں نشہ کی حالت میں پائے جانے کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ ہے کہ شرعی قانون کی نظر میں کسی شخص کا محض راستہ میں لڑکھڑاتے اور جھومتے ہوئے چلنا اس نشہ کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے جو اس پر حد کے جاری ہونے کو واجب کرے۔
Top