مشکوٰۃ المصابیح - شراب کی حد کا بیان - حدیث نمبر 3576
وعن أبي هريرة قال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم أتي برجل قد شرب الخمر فقال : اضربوه فمنا الضارب بيده والضارب بثوبه والضارب بنعله ثم قال : بكتوه فأقبلوا عليه يقولون : ما اتقيت الله ما خشيت الله وما استحييت من رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال بعض القوم : أخزاك الله . قال : لا تقولوا هكذا لا تعينوا عليه الشيطان ولكن قولوا : اللهم اغفر له اللهم ارحمه . رواه أبو داود
شرابی کو سزا دو اس کو عار دلاؤ لیکن اس کے حق میں بدعا نہ کرو
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ایک دن رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی آنحضرت ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ اس کی پٹائی کرو۔ چناچہ ہم میں سے بعض نے جوتیوں سے اس کی پٹائی کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب زبان سے اس کو تنبیہ کردو اور عار دلاؤ۔ چناچہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے کہنا شروع کیا کہ تو نے اللہ کی مخالفت سے اجتناب نہیں کیا تو اللہ سے نہیں ڈرا اور تو رسول اللہ ﷺ کی متابعت ترک کرنے یا اس حالت میں آپ کے سامنے آنے سے بھی نہیں شرماتا۔ اور پھر جب بعض لوگوں نے یہ کہا اللہ تعالیٰ تجھ کو (دنیا وآخرت دونوں جگہ یا آخرت میں) ذلیل ورسوا کرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح نہ کہو اور اس پر شیطان کے غالب ہوجانے میں مدد نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ اے اللہ! اس گناہ کو مٹا کر اس کو بخشش دے اور اس کو طاعت ونی کی کی توفیق عطا فرما کر اس پر رحم کر یا اس کو دنیا میں بخشش دے اور عاقبت میں اس پر اپنا رحم فرما۔ (ابو داؤد)

تشریح
آنحضرت ﷺ نے زبان سے تنبیہ کرنے کا جو حکم دیا وہ استحباب کے طور پر تھا جب کہ آپ ﷺ کا پہلا حکم کہ اس کی پٹائی کرو وجوب کے طور پر تھا۔ اس پر شیطان کے غالب ہوجانے میں مدد نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی بدعا کر کے شیطان کی اعانت نہ کرو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا تو اس پر شیطان کا تسلط ہوجائے گا یا جب وہ تم کو یہ بدعا کرتے ہوئے سنے گا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید و مایوس ہوجائے گا اور یہ مایوسی ونا امیدی اس کو گناہوں میں منہمک رکھے گی اس طرح اس پر اپنا غلبہ رکھنے کا شیطان کا مقصد بھی پورا ہوگا اور اس کا گناہوں اصراروتکرار اللہ کے غضب کا سبب بھی ہوگا لہٰذا اس اعتبار سے تمہاری بدعا شیطان کے بہکانے میں مدد گا ہوگی۔ بلکہ یوں کہو اس حکم کا مطلب یا تو یہ تھا کہ شروع ہی میں اس کے لئے مغفرت ورحمت کی دعا کرنی چاہئے یا یہ کہ اب اس کے لئے دعاء مغفرت ورحمت کرو اور زیادہ صحیح یہی بات ہے کیونکہ شروع میں تو اس کو عار دلانا مطلوب تھا اور ظاہر ہے کہ اس دعا (اللہم اغفرلہ) کے ساتھ عار دلانے یا اس کو تنبیہ کرنے کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔
Top