مشکوٰۃ المصابیح - مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان - حدیث نمبر 3514
وعن جرير بن عبد الله قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم سرية إلى خثعم فاعتصم ناس منهم بالسجود فأسرع فيهم القتل فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه و سلم فأمر لهم بنصف العقل وقال : أنا بريء من كل مسلم مقيم بين أظهر المشركين قالوا : يا رسول الله لم ؟ قال : لا تتراءى ناراهما . رواه أبو داود
مسلمان، کافروں میں مخلوط نہ رہیں
اور حضرت جریر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے قبیلہ خثعم کے مقاتلہ پر ایک لشکر بھیجا تو اس قبیلہ کے کچھ لوگ (جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کا رہن سہن قبیلہ کے کافروں ہی کے ساتھ تھا نماز کی پناہ پکڑنے لگے) یعنی لشکر والوں کو علم ہوجائے کہ یہ مسلمان ہیں اور اس طرح وہ حملہ سے بچ جائیں لیکن ان کے قتل میں عجلت سے کام لیا گیا یعنی لشکر والوں نے ان کے سجدوں کا اعتبار نہ کیا اور یہ گمان کر کے کہ یہ بھی کافر ہیں اور محض قتل سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں ان کو بھی قتل کردیا جب اس واقعہ کی اطلاع رسول کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے ان مسلمان مقتولین کے ورثاء کو آدھی دیت دیئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس مسلمان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کرے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی بیزاری کا سبب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دور رہنا چاہئے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (لیکن اگر کوئی مسلمان کافروں میں مخلوط رہا تو گویا اس نے حکم کی پرواہ نہیں کی )۔ (ابو داؤد)

تشریح
رسول کریم ﷺ نے ان مقتولین کے مسلمان ہونے کا علم ہوجانے کے باوجود ان کے ورثاء کو پوری دیت کا حقدار قرار نہیں دیا بلکہ آدھی دیت دیئے جانے کا حکم فرمایا اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے مشرکین کے درمیان اقامت اختیار کر کے گویا خود اپنے قتل میں معاونت کی جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اس کا اظہار بھی فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے اپنی بیزاری اور برأت کا اظہار کرتا ہو جو مشرکین اور کفار کے درمیان اقامت پذیر ہو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے سے اتنی دور اقامت اختیار کریں کہ اگر دونوں طرف آگ جلائی جائے تو مسلمان کی آگ کافر نہ دیکھ سکیں اور کافروں کی آگ مسلمان نہ دیکھ سکیں۔ جیسا کہ ترجمہ میں وضاحت کی گئی ہے اس جملہ میں آنحضرت ﷺ کی اس بیزاری کی علت مذکور ہے جو آپ ﷺ نے کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں کے متعلق ظاہر فرمائی ہے۔
Top