مشکوٰۃ المصابیح - مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان - حدیث نمبر 3510
وعن أبي سعيد الخدري وأنس بن مالك عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : سيكون في أمتي اختلاف وفرقة قوم يحسنون القيل ويسيئون الفعل يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين مروق السهم في الرمية لا يرجعون حتى يرتد السهم على فوقه هم شر الخلق والخليقة طوبى لمن قتلهم وقتلوه يدعون إلى كتاب الله وليسوا منا في شيء من قاتلهم كان أولى بالله منهم قالوا : يا رسول الله ما سيماهم ؟ قال : التحليق . رواه أبو داود
ایک باطل فرقہ کے بارے میں پیش گوئی
اور حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس ابن مالک رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا عنقریب میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا ایک فرقہ جو باتیں تو اچھی کرے گا مگر اس کا عمل برا ہوگا اس فرقہ کے لوگ قرآن کریم پڑھیں گے لیکن ان کا وہ پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا یعنی قبول نہیں ہوگا اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور وہ دین کی طرف اس وقت تک نہیں لوٹیں گے جب تک کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے اور وہ لوگ آدمیوں اور جانوروں میں سب سے بدترین ہوں گے۔ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو قتل کر دے یا وہ لوگ اس کو قتل کردیں۔ یعنی جو شخص ان لوگوں کے فتنہ اور ان کی گمراہی کا سر کچلنے کے لئے ان کا مقابلہ کرے یہاں تک کہ یا تو وہ ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دے یا وہ ان لوگوں سے حق کے لئے لڑتا ہوا خود قتل ہوجائے تو دونوں صورتوں میں اس کے لئے حق تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی سعادتوں کی خوشخبری ہے کہ پہلی صورت میں تو وہ غازی کا لقب پائے گا اور دوسری صورت میں شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل کرے گا وہ بظاہر تو انسانوں کو کتاب اللہ کی دعوت دیں گے لیکن رسول کریم ﷺ کی سنت اور ان کی احادیث کو ترک کرنے پر اکسائیں گے حالانکہ احادیث نبوی ﷺ قرآن کریم کی تفسیر و

تشریح
ہیں کہ احادیث کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ناممکن ہے وہ لوگ کسی معاملہ میں ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں یعنی وہ کسی بات میں مسلمان شمار نہیں ہوں گے جو شخص ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارے گا وہ اپنی جماعت میں اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوگا صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ان لوگوں کی پہنچان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا سرمنڈانا۔ (ابو داؤد ) تشریح میری امت میں اختلاف وافتراق پیدا ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو آپس میں اختلاف وافتراق کو ہوا دیں گے اور اپنی اغراض کے لئے امت کے اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے! یہ جملہ ایک فرقہ باتیں تو اچھی کرے گا ماقبل کے جملہ کی وضاحت اور بیان ہے یعنی امت میں جو لوگ اختلاف وافراق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ان کی ایک خاص علامت یہ ہوگی کہ وہ باتیں تو بڑی اچھی اچھی کریں گے لیکن ان کا عمل بہت ہی برا ہوگا ان کی زبان سے تو یہ ظاہر ہوگا کہ پوری امت میں یہی لوگ ہیں جو دین کے شیدائی ہے، اللہ اور رسول ﷺ کے سچے اطاعت گزار ہیں اور مسلمانوں کے بھی خواہ ہیں لیکن ان کے عمل و کردار کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنی اغراض کے لئے مسلم دشمن طاقتوں کا آلہ کار اپنے نفس کے غلام اپنی خواہشات کے بندے اور مال وجاہ کے حرص میں مبتلا ہوں گے اور ان کا مقصد اتحاد امت کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوگا۔ یہ جملہ (یقرؤون القران) اس فرقہ کے لوگ قرآن پڑھیں گے یا تو استیناف یعنی ایک الگ جملہ ہے جو ماقبل کی عبارت کی توضیح وبیان ہے یا شاطبی کے مسلک کے مطابق بدل ہے یا پھر اس سے نفس اختلاف کی وضاحت مراد ہے کہ عنقریب میری امت کے لوگوں میں اختلاف و افتراق پیدا ہوجائے گا اور دو فرقوں میں تقسیم ہوجائیں گے ان میں سے ایک فرقہ حق پر ہوگا اور ایک فرقہ باطل پر ہوگا طیبی کہتے ہیں کہ اس تاویل کی تائید آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو اسی باب کی پہلی فصل میں نقل ہوچکا ہے کہ حدیث (تکون امتی فرقتین فتخرج من بینہما مارقۃ یلی فتلہم اولاہم بالحق) اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ قوم مابعد کے جملہ کا موصوف ہے اور ایک کی خبر جملہ (یقرؤوں القران) ہے اور اس جملہ کا مقصد ان دونوں فرقوں میں سے ایک فرقہ کی (جو باطل ہے ) نشان دہی کرنا ہے جب کہ دوسرے فرقہ کے ذکر کو اس لئے چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود بخود مفہوم ہوجاتا ہے۔ حدیث (لا یجاوز تراقیہم) ان کا پڑھنا ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ لوگ بنیادی طور پر گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور محض آلہ کار کے طور پر قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان کے دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر ان کا مخارج حروف اور ان کی آوازوں سے آگے نہیں جائے گا جس کی وجہ سے قرآن کریم کی آیات کا کوئی بھی اثر نہ ان کے دل پر ہوگا اور نہ ان دوسرے اعضاء حرکت وعمل اثر پذیر ہوں گے چناچہ قرآن کریم کی جن باتوں پر یقین و اعتقاد کرنا لازم ہے ان پر وہ اعتقاد و یقین نہیں رکھیں گے اور قرآن کریم کی جن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے وہ ان پر عمل نہیں کریں گے۔ یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قرأت کو اس دنیا سے اوپر نہیں اٹھائے گا یعنی اس کو قبول نہیں کرے گا گویا ان کی قرأت ان کے حلقوم سے آگے نہیں بڑھے گی۔ حدیث (حتی یرتد السہم علی فوقہ) جب کہ تیر اپنے سوفار کی طرف نہ لوٹ آئے یہ تعلیق بالمحال ہے یعنی جس طرح تیر کا اپنے سوفار اپنی چٹکی کی جگہ واپس آنا محال ہے اسی طرح ان لوگوں کا دین کی طرف آنا بھی محال ہے گویا یہ جملہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (حتی یلج الجمل فی سم الخیاط) کی مانند ہے اور اس جملے کا منشاء اس بات کو تاکید اور شدت کے ساتھ بیان کرنا ہے کیونکہ وہ لوگ سخت قسم کی جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے اور یہ غلط گمان ان کے قلب و دماغ میں بیٹھ چکا ہوگا کہ ہم حق اور ہدایت پر ہیں اس لئے ان کا دین کے دائرہ میں لوٹ آنا ناممکن ہوگا۔ سرمنڈانا آپ ﷺ نے یہ بات شائد اس لئے فرمائی کہ اس زمانہ میں عرب میں سرمنڈانے کا رواج نہیں تھا، بلکہ اکثر لوگ سروں پر بال رکھا کرتے تھے، اس ارشاد کا مقصد سرمنڈانے کی برائی یا تحقیر کرنا نہیں ہے کیونکہ سرمنڈانا تو اللہ کے شعار اور اس کی طاعت میں سے ایک عمل ہے اور ان لوگوں کی عادات میں سے ہے جو اللہ کے نیک و صالح بندے ہیں۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تحلیق سے مراد سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ لوگوں کو حلقہ در حلقہ بٹھانا مراد ہے جو ان لوگوں کی طرف سے محض نمائش اور تکلف کے طور پر ہوگا۔
Top