مشکوٰۃ المصابیح - مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان - حدیث نمبر 3504
وعن علي رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : سيخرج قوم في آخر الزمان حداث الأسنان سفهاء الأحلام يقولون من خير قول البرية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فأينما لقيتموهم فاقتلوهم فإن في قتلهم أجرا لمن قتلهم يوم القيامة
فرقہ خوارج کی نشاندہی
اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب اس زمانہ کے آخر میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نوجوان ہوں گے ہلکی عقل والے ہونگے لوگوں کی اچھی باتیں بیان کریں گے لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا ایمان سے مراد نماز ہے یعنی ان کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی اور وہ لوگ دین یعنی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے اس طرح نکل بھاگیں جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے لہٰذا تم میں سے جس شخص کی ایسے لوگوں سے مڈبھیڑ ہوجائے وہ انہیں قتل کر دے کیونکہ ان کے قتل کرنے کا اس شخص کو قیامت کے دن انعام ملے گا جو انہیں قتل کرے گا۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
لوگوں کو اچھی باتیں بیان کریں گے اس سے مراد یہ ہے کہ مذکورہ لوگ وہ بہترین اقوال اور اچھی باتیں بیان کریں گے جو عام طور پر اللہ کے نیک بندوں کی زبانوں پر رہتی ہیں یعنی قرآن کریم کی آیات لیکن ملحوظ رہے کہ مشکوٰۃ کے نسخوں میں تو (من خیر قول البریۃ) ہے یعنی خیر کا تعلق قول سے ہے چناچہ یہاں اسی کے مطابق ترجمہ و مطلب بیان کیا گیا ہے جب کہ مصابیح میں (من قول خیر البریہ) ہے یعنی اس میں خیر کا تعلق البریہ سے ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ بہترین انسان کے اقوال بیان کریں گے اس صورت میں قرآن کریم کی آیات کی بجائے رسول کریم ﷺ کی احادیث مراد ہوں گی۔ لیکن علماء کہتے ہیں کہ جملہ کی زیادہ مناسب اور موزوں ترکیب وہی ہے جو یہاں مشکوٰۃ میں نقل کی گئی ہے کیونکہ احادیث میں خوارج کے بارے میں منقول ہے کہ وہ قرآن کریم کی آیات پڑھیں گے اور ان سے اپنے غلط عقائد ونظریات پر استدلال کریں گے اور ان آیات کی غلط سلط تاویل کریں گے۔ جس طرح تیر شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی شکار کے درمیان سے نکل جاتا ہے اور اس شکار میں جلدی پیوست ہو کر فورًا نکل جانے کی وجہ سے وہ تیر شکار کے خون وغیرہ سے آلودہ نہیں ہوتا اسی طرح وہ لوگ بھی امام وقت اور علماء حق کی اطاعت سے نکل جائیں گے! طیبی کہتے ہیں کہ اس تمثیل کی مراد ان لوگوں کا دین کے دائرہ میں داخل ہونے پھر دین کے دائرہ سے نکل جانے اور اس تیر کی مانند کہ جو شکار میں پیوست ہو کر نکل جائے اور آلودہ نہ ہو ان لوگوں پر دین کی کسی بات کے اثر نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے نیز اس کا منشاء ان خوارج کی نشان دہی کرنا ہے جو امام وقت اور اسلامی حکومت کے اطاعت گزار نہیں ہوتے اور لوگوں پر ہتھیار اٹھاتے ہیں چناچہ ابتداء میں ان خوارج کا ظہور حضرت علی کے عہد خلافت میں ہوا جن میں سے اکثر کو حضرت علی نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خوارج کے بارے میں علماء کا فیصلہ خطابی کہتے ہیں کہ علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خوارج کی جماعت باوجود گمراہی کے مسلمانوں ہی کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے ان کے ہاں نکاح کرنا بھی جائز اور ان کا ذبیحہ کھانا بھی درست ہے نیز ان کی گواہی بھی معتبر ہے چناچہ منقول ہے کہ حضرت علی ؓ سے ان سے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ منافق ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ منافق تو اللہ تعالیٰ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں اس لئے انہیں منافق بھی نہیں کہا جاسکتا پھر پوچھا گیا کہ تو آخر وہ کیا ہیں؟ حضرت علی نے فرمایا کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ کے لوگ ہیں فتنہ و گمراہی نے ان کو گھیر لیا ہے چناچہ وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا خوارج مسلمانوں کے ایک فرقہ کا نام ہے جو گمراہی میں مبتلا ہے اس فرقہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ بندہ نہ صرف گناہ کبیرہ بلکہ صغیرہ گناہوں کے ارتکاب سے بھی کافر ہوجاتا ہے۔
Top