مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3456
وعن جندب قال : حدثني فلان أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : يجيء المقتول بقاتله يوم القيامة فيقول : سل هذا فيم قتلني ؟ فيقول : قتلته على ملك فلان . قال جندب : فاتقها . رواه النسائي
قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر اللہ سے فریاد کرے گا
اور حضرت جندب کہتے ہیں کہ مجھے فلاں صحابی نے (کہ جن کا نام یا تو حضرت جندب ہی نے نہ لیا یا انہوں نے نام لیا لیکن راوی کے ذہن میں وہ نام نہیں رہا (یہ حدیث بیان کی کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو (پکڑ کر) لائے گا اور (اللہ تعالیٰ سے) فریاد کرے گا کہ اس سے پوچھئے کہ اس نے مجھ کو کس وجہ سے قتل کیا تھا؟ چناچہ قاتل کہے گا کہ میں نے اس کو فلاں شخص کی سلطنت میں قتل کیا تھا جندب نے (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) کہا کہ تم اس سے بچو۔ (نسائی )

تشریح
بظاہر مقتول کے سوال اور قاتل کے جواب میں کوئی مطابقت نظر نہیں آتی، کیونکہ مقتول نے تو قتل کا سبب پوچھا تھا نہ کہ قتل کی جگہ کو دریافت کیا تھا؟ اس بارے میں شارحین لکھتے ہیں کہ قاتل کے جملہ میں نے اس کو فلاں شخص کی سلطنت میں قتل کیا تھا کی مراد یہ ہے کہ میں فلاں حاکم یا فلاں بادشاہ یا فلاں دنیا دار کے زمانہ میں اس کی مدد سے یا اس کے ایماء پر اس قتل کا ارتکاب کیا تھا لیکن یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب کہ روایت میں لفظ ملک میم کے پیش کے ساتھ (یعنی ملک) ہو اور اگر زبر کے ساتھ (یعنی ملک) ہے تو پھر یہ معنی مراد ہوں گے کہ میں نے اس کو جھگڑے کے دوران قتل کیا تھا جو میرے اور اس کے درمیان فلاں شخص (مثلا زید کی عملداری میں ہوا تھا اس اعتبار سے قاتل کا مذکورہ جملہ بیان واقعہ کے لئے ہوگا۔ جندب کے قول تم اس سے بچو سے مراد مخاطب کو قتل اور قتل میں مدد دینے سے نیز جھگڑا فساد کرنے سے جو عام طور پر قتل کا باعث ہوتا ہے، روکنا ہے، طیبی کہتے ہیں کہ حضرت جندب نے ایک بادشاہ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی تھی اور مذکورہ جملہ کا مخاطب وہی بادشاہ تھا، اس سے حضرت جندب کا مقصود یہ تھا کہ بادشاہ کسی ظالم کی مدد نہ کرے۔
Top