مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3448
وعن الحسن عن سمرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قتل عبده قتلناه ومن جدع عبده جدعناه . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي وزاد النسائي في رواية أخرى : ومن خصى عبده خصيناه
غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
اور حضرت حسن بصری (تابعی) حضرت سمرۃ (صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اس کو قتل کردیں گے اور جو شخص (اپنے غلام کے) اعضاء کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹ دیں گے۔ (ترمذی، ابودؤ اد، ابن ماجہ، دارمی) اور نسائی نے ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں۔ کہ جو شخص اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اس کو خصی کردیں گے۔

تشریح
جو شخص اپنے غلام کو قتل کر دے گا ہم اس کو قتل کردیں گے دیں گے، یہ آپ ﷺ نے بطور زجر و تشدید اور تنبیہ فرمایا کہ لوگ اپنے غلاموں کو مار ڈالنے سے باز رہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک شخص نے سخت ترین ممانعت تنبیہ کے باوجود بھی جب چوتھی یا پانچویں بار شراب پی لی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو قتل کردو، لیکن جب وہ آپ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں غلام سے مراد وہ شخص ہے جو غلام بھی رہا ہو اور پھر آزاد کردیا گیا ہو، اگرچہ ایسے شخص کو غلام نہیں کہا جاتا لیکن اس کے سابق حال کے اعتبار سے اس کو یہاں غلام تعبیر کیا گیا۔ اور بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس آیت کریمہ (اَلْحُ رُّ بِالْحُ رِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْ ثٰى بِالْاُنْ ثٰى) 2۔ البقرۃ 178) کے ذریعہ منسوخ ہے! اس بارے میں جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے غلام کو قتل کر دے تو اس کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اس نے اپنے غلام کو قتل کردیا تو اس غلام کے بدلے میں اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام اعظم کے سوا تینوں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ آیت کریمہ (اَلْحُ رُّ بِالْحُ رِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْ ثٰى بِالْاُنْ ثٰى) 2۔ البقرۃ 178) کے بموجب کسی آزاد شخص کو نہ تو اپنے غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے اور نہ کسی دوسرے کے بدلے میں۔ حضرت ابر اہیم نخعی اور حضرت سفیان ثوری کا قول یہ ہے کہ مقتول غلام کے بدلے میں قاتل آزاد کو قتل کیا جائے خواہ وہ مقتول اس کا اپنا غلام ہو یا کسی دوسرے کا۔ اور جو شخص اعضاء کاٹے گا الخ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آزاد کسی غلام کے اعضاء جسم کاٹ ڈالے تو اس کے بدلے میں اس آزاد کے اعضاء جسم نہ کاٹے جائیں علماء کے اس اتفاق سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہم اس کے اعضاء کاٹ دیں گے یا تو زجر و تنبیہ پر محمول ہے یا منسوخ ہے۔
Top