مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3446
وعن أبي رمثة قال : أتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم مع أبي فقال : من هذا الذي معك ؟ قال : ابني اشهد به قال : أما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه . رواه أبو داود والنسائي وزاد في شرح السنة في أوله قال : دخلت مع أبي على رسول الله صلى الله عليه و سلم فرأى أبي الذي بظهر رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : دعني أعالج الذي بظهرك فإني طبيب . فقال : أنت رفيق والله الطبيب
باپ بیٹے ایک دوسرے کے جرم میں قابل مواخذہ نہیں
اور حضرت ابورمثہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ والد نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے، آپ گواہ رہیے آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نہ تو یہ تمہیں اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرے گا اور نہ تم اس کو اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرو گے۔ (ابو داؤد، نسائی) اور صاحب مصابیح نے شرح السنۃ میں اس روایت کے شروع میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ ابورمثہ نے کہا کہ جب میں نے اپنے والد کے ہمراہ رسول کریم ﷺ کی پشت مبارک پر مہر نبوت دیکھی تو وہ اس کی حقیقت نہ سمجھ سکے اور کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ آپ کی پشت پر جو چیز ہے میں اس کا علاج کروں کیونکہ میں طبیب ہوں، رسول کریم نے فرمایا تم (تو بس) رفیق ہو، طبیب (تو) اللہ ہے۔

تشریح
آپ گواہ رہئے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بات کے گواہ رہئے کہ یہ میرا صلبی بیٹا ہے اور اس گواہ بنانے سے مقصود یہ تھا کہ اگر مجھ سے کوئی جرم جیسے قتل وغیرہ سرزد ہوجائے تو میرے اس بیٹے سے مواخذہ کیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ باپ بیٹے ایک دوسرے کے جرم میں قابل مواخذہ ہوتے تھے لیکن رسول کریم ﷺ نے اپنے اس ارشاد نہ تمہیں یہ اپنے گناہ کی وجہ سے مبتلا کرے گا الخ کے ذریعہ ابورمثہ کے والد پر یہ واضح کردیا کہ اگر تمہارے بیٹے نے کوئی جرم کیا تو اس کی وجہ سے تمہیں نہیں پکڑا جائے گا اور نہ اس گناہ کی وجہ سے آخرت میں تم سے پرستش ہوگی، اسی طرح اگر تم سے کوئی جرم و گناہ سرزد ہوجائے تو دنیا وآخرت میں تمہارے بیٹے سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا، یہ صرف زمانہ جاہلیت کا رواج ہے کہ باپ بیٹے ایک دوسرے کے گناہ کی وجہ سے پکڑے جاتے تھے، یہ ایک منصفانہ طرز عمل تھا جو اب ختم کردیا گیا ہے۔ کیونکہ میں طبیب ہوں اس جملہ کے ذریعہ ابورمثہ کے والد نے گویا طب و دانائی کا دعوی کیا، ان کی یہ بات جس سے ان کی ناسمجھی اور بےادبی مترشح تھی، آنحضرت ﷺ کو سخت ناپسند ہوئی، چناچہ آپ نے ان سے فرمایا کہ تم تو بس رفیق ہو، بایں معنی کہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ جب تم کسی مریض کو دیکھو تو اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر کوئی نسخہ اور دوا تجویز کردو اس کے علاج کے دوران اس کے ساتھ نرمی و مہربانی کی خو اختیار کرو اور جو چیز بظاہر اس کے لئے نقصان دہ ہوتی ہو اس سے اس کو دور رکھنے کی کوشش کرو اس کے علاوہ اور تمہارے بس میں کیا ہے؟ کیا شفا تمہارے ہاتھ میں ہے؟ کیا مرض کی حقیقت تک تمہارے علم وفن کی رسائی ہوجاتی ہے؟ ہرگز نہیں طبیب تو اللہ ہے کیونکہ مرض کی حقیقت بھی وہی جانتا ہے اور دوا کی حقیقت بھی اسی کے علم میں ہے اور شفا بھی صرف اسی ذات پاک کے ہاتھ میں ہے۔ جو بقا کے ساتھ موصوف ہے، اس ذات پاک کے علاوہ کوئی بڑی سے بڑی طاقت شفا نہیں دے سکتی۔
Top