مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3435
وعن جابر : أن الطفيل بن عمرو الدوسي لما هاجر النبي صلى الله عليه و سلم إلى المدينة هاجر إليه وهاجر معه رجل من قومه فمرض فجزع فأخذ مشاقص له فقطع بها براجمه فشخبت يداه حتى مات فرآه الطفيل بن عمرو في منامه وهيئته حسنة ورآه مغطيا يديه فقال له : ما صنع بكل ربك ؟ فقال : غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه و سلم فقال : ما لي أراك مغطيا يديك ؟ قال : قيل لي : لن تصلح منك ما أفسدت فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اللهم وليديه فاغفر . رواه مسلم
خود کشی کے بارے میں ایک سبق آموز واقعہ
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو طفیل ابن عمرو دوسی بھی ہجرت کر کے آنحضرت ﷺ کے پاس آگئے ان کے ساتھ ان کے قبیلے کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی (اتفاق سے) وہ شخص مدینہ میں بیمار ہوگیا اور (جب مرض نے شدت اختیار کی) اس سے صبر نہ ہوسکا، چناچہ اس نے تیر کی پیکان لے کر اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے، اس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھوں سے اتنا خون جاری ہوا کہ وہ مرگیا (اس کے انتقال کے بعد ایک دن) طفیل بن عمرو نے اس شخص نے اس سے پوچھا کہ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وجہ سے بخش دیا ہے کہ میں نے اس کے نبی ﷺ کی طرف ہجرت کی تھی پھر طفیل نے کہا کہ میں تمہیں اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے دیکھ رہا ہوں اس شخص نے (بڑی حسرت کے ساتھ) کہا کہ (پروردگار کی طرف سے) مجھ سے کہا گیا ہے کہ جس چیز کو تم نے خود خراب کیا ہے ہم اس کو درست نہیں کریں گے جب طفیل نے یہ خواب رسول کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ! اس کو اور اس کے دونوں ہاتھوں کو بخش دے۔ (مسلم )

تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے وطن سے ہجرت کر کے نبی کریم ﷺ کے پاس چلے جانے کی یہ برکت تھی کہ مہاجر کو حق تعالیٰ کی مغفرت ورحمت ہوتی ہے اور اگر مہاجر کسی گناہ میں مبتلا ہوجاتا تھا تو آنحضرت ﷺ کے استغفار کی وجہ سے اس کی بخشش ہوجاتی تھی۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے روضہ اطہر کی زیارت، آپ ﷺ کی حیات مبارک میں آپ کی جسمانی زیارت کے مانند ہے لہٰذا آپ کی حیات مبارک میں آپ کی زیارت کرنے والوں کو حق تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کی جو برکت ہوتی تھی آپ ﷺ کے روضہ اطہر کے زیارت کرنے والے کو بھی اسی نعمت عظمی کی امید رکھنی چاہئے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ تو کفر کا باعث ہے اور نہ دوزخ کے دائمی عذاب کا موجب ہے، چناچہ اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اپنے کئے کی سزا پالینے کے بعد جنت میں داخل کردیا جائے گا۔
Top