مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3433
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من تردى من جبل فقتل نفسه فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا ومن تحسى سما فقتل نفسه فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ومن قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا (2/286) 3454 - [ 9 ] ( صحيح ) وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الذي يخنق نفسه يخنقها في النار والذي يطعنها يطعنها في النار . رواه البخاري (2/286) 3455 - [ 10 ] ( متفق عليه ) وعن جندب بن عبد الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : كان فيمن كان قبلكم رجل به جرح فجزع فأخذ سكينا فحز بها يده فما رقأ الدم حتى مات قال الله تعالى : بادرني عبدي بنفسه فحرمت عليه الجنة
خودکشی کرنے والے کے بارے میں وعید
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کرلی وہ شخص ہمیشہ دوزخ میں گرایا جائے گا اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور کبھی اس سے نہیں نکلے گا۔ جو شخص زہر پی کر خود کشی کرے گا اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں پئے گا وہ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔ اور جس شخص نے لوہے کے (کسی) ہتھیار (جیسے چھری وغیرہ) سے اپنے آپ کو مار ڈالا اس کا وہ ہتھیار دوزخ کی آگ میں اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کو وہ اپنے پیٹ میں گھونپے گا اور دوزخ میں ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
لفظ مخلدا اور ابدًا خالدًا کی تاکید ہیں۔ حاصل حدیث کا یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا آخرت میں اس کو ہمیشہ کے لئے اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ لیکن یہاں ہمیشہ سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کو حلال جان کر ارتکاب کریں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے، یا پھر ہمیشہ ہمیشہ سے مراد یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے مدت دراز تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص نے گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو مار ڈالا وہ دوزخ میں بھی اپنا گلا گھونٹے گا اور جس شخص نے اپنے آپ کو نیزہ مار کر خود کشی کرلی وہ دوزخ میں (بھی) اپنے آپ کو نیزے مارے گا۔ اور حضرت جندب ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ایک دن فرمایا تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص تھا (جو کسی طرح) زخمی ہوگیا تھا چناچہ (جب زخم کی تکلیف شدید ہونے کی وجہ سے) اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تو چھرئی اٹھائی اور اپنے (اس) ہاتھ کو کاٹ ڈالا (جس میں زخم تھا) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زخم نہ رکا اور وہ مرگیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں میرے فیصلہ کا انتظار نہیں کیا (بلکہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا) لہٰذا میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح میں نے جنت کو حرام کردیا اس بات پر محمول ہے کہ اس نے خود کشی کو حلال جانا تھا اور چونکہ ایک حرام چیز کے بارے میں حلال کا عقیدہ رکھنا صریحا کفر ہے اس لئے اس پر دخول جنت کو حرام کردیا گیا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک وہ دوزخ میں جا کر اپنے کئے کی سزا نہ چکھ لے، اس کو اول مرحلہ میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں جانے سے محروم کردیا گیا۔
Top