مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3431
وعن أسامة بن زيد قال : بعثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى أناس من جهينة فأتيت على رجل منهم فذهبت أطعنه فقال : لا إله إلا الله فطعنته فقتلته فجئت إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرته فقال : أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله ؟ قلت : يا رسول الله إنما فعل ذلك تعوذا قال : فهلا شققت عن قلبه ؟ (2/285) 3451 - [ 6 ] ( صحيح ) وفي رواية جندب بن عبد الله البجلي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : كيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة ؟ . قاله مرارا . رواه مسلم
جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا وہ معصوم الدم ہوگیا
اور حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ہمیں قبیلہ جہینہ کے لوگوں کے مقابلہ پر بھیجا چناچہ ( ان کے مقابلہ کے دوران) میں ایک شخص پر جھپٹا اور اس پر نیزہ کا حملہ کرنا چاہا کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) کہہ دیا لیکن میں نے اس میں اپنا نیزہ پیوست کر کے اس کو قتل کردیا۔ پھر جب میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں واپس آیا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا (صد افسوس) کہ تم نے اس صورت میں قتل کردیا جب کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) پڑھ تھا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اس نے محض قتل سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھا تھا! آپ ﷺ نے فرمایا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا لیا تھا؟۔ اور جندب ابن عبداللہ بجلی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب قیامت کے دن کلمہ (لا الہ الا اللہ) اپنے پڑھنے والے یعنی (مقتول) کی طرف سے جھگڑتا ہوا تمہارے پاس آئے گا تو اس وقت تم اس کو کیا جواب دو گے۔ آنحضرت ﷺ نے (خوف دلانے کے لئے) یہ الفاظ کئی بار ارشاد فرمائے۔ (مسلم)

تشریح
تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا؟ آپ ﷺ نے یہ ارشاد اس شخص کے باطن کے مطابق فرمایا کہ اگر تم اس شخص کے باطن پر مطلع ہوسکتے تھے تو تم اس کا دل چیر کر دیکھ لیتے اور یہ معلوم کرتے کہ آیا اس شخص نے محض اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے کلمہ (لا الہ الا اللہ) پڑھا تھا یا واقعۃ یہ کلمہ اس کے قلب کے صدق اخلاص کے ساتھ اس کی زبان سے نکلا تھا! لیکن ظاہر ہے کہ تم نہ اس کے دل کو چیر کر اس کے باطن کو دیکھ سکتے تھے اور نہ فوری طور پر اس کے باطن کا حال کسی اور ذریعہ سے تمہیں معلوم ہوسکتا تھا اس لئے معقول بات تو یہ تھی کہ تم اس کے ظاہر پر حکم لگاتے یعنی اس کے کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے اس کو مؤمن سمجھ لیتے اور اس کو قتل کرنے سے باز رہتے۔ ادھر حضرت اسامہ نے یہ گمان کیا کہ ایسی حالت میں جب میرا نیزہ موت بن کر اس کے سر پر پہنچ چکا ہے اب اس کا ایمان قبول کرنا فائدہ مند نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس شخص کا کام تمام کردیا، یہ گویا ان کا اجتہاد تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان پر یہ تو ظاہر فرما دیا کہ تم سے اجتہادی خطاء ہوگئی ہے لیکن ان پر دیت لازم نہیں کی کیوں کہ مجتہد اپنی خطاء اجتہاد میں معذور ہوتا ہے ہاں اس بات کے لئے آپ ﷺ نے بہر حال اپنی خفگی کا بھی اظہار فرمایا کہ اس کی اصل حیثیت و حقیقت ظاہر ہونے تک تم پر توقف لازم تھا لیکن تم نے توقف نہ کر کے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔
Top