مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3414
وعن ابن عباس : أن سعد بن عبادة رضي الله عنهم استفتى النبي صلى الله عليه و سلم في نذر كان على أمه فتوفيت قبل أن تقضيه فأفتاه أن يقضيه عنها
نذر ماننے والے کے ورثاء پر نذر پوری کرنا واجب ہے یا نہیں ؟
اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول کریم ﷺ سے اس نذر کے بارے میں مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں نے مانی تھی اور اس کو پورا کرنے سے پہلے وہ مرگئی تھیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے سعد کو یہ فتویٰ دیا کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے اس نذر کو پورا کریں۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت سعد کی والدہ کی نذر کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مطلق نذر مانی تھی، بعض تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے روزے کی نذر مانی تھی، بعض کا قول یہ ہے کہ ان کی نذر غلام کو آزاد کرنے کی تھی اور بعض یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صدقہ کی نذر مانی تھی، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے یا تو مالی نذر مانی تھی یا ان کی نذر مبہم تھی چناچہ اس کی تائید دار قطنی کی روایت کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کی طرف سے پانی پلاؤ۔ اگر کسی شخص نے کوئی نذر مانی ہو اور اس نذر کو پورا کرنے سے پہلے مرگیا ہو تو اس کے بارے میں جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ اس شخص کے وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے جب کہ وہ نذر غیر مالی ہو، اسی طرح اگر نذر مالی ہو اور اس میت نے کچھ ترکہ نہ چھوڑا ہو تو اس صورت میں بھی اس کے وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہوگا، البتہ مستحب ہوگا، لیکن علماء ظواہر اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے بموجب یہ کہتے ہیں کہ وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ جمہور علماء کی دلیل یہ ہے کہ اس نذر کو خود وارث نے اپنے اوپر لازم نہیں کیا ہے کہ اس کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ البتہ مستحب ہوگا۔ لیکن علماء ظواہر اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے بموجب یہ کہتے ہیں کہ وارث پر اس نذر کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ جمہور علماء کی دلیل یہ ہے کہ اس نذر کو خود وارث نے اپنے اوپر لازم نہیں کیا ہے کہ اس کو پورا کرنا اس پر واجب ہو اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو اول تو یہ حدیث وجوب پر دلالت ہی نہیں کرتی دوسرے یہ کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت سعد کی والدہ نے ترکہ چھوڑا ہو اور اس ترکہ سے ان کی نذر پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہو یا یہ کہ محض تبرعاً یہ حکم دیا گیا ہو۔
Top