مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3398
قسم کی قسمیں اور ان کے احکام
قسم کی تین قسمیں ہیں۔ ١ غموس۔ ٢ لغو۔ ٣ منعقدہ۔ غموس اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر جھوٹی قسم کھائی جائے، مثلاً یوں کہا جائے اللہ کی قسم میں نے یہ کام کیا تھا حالانکہ واقعتًا وہ کام نہیں کیا تھا یا یوں کہا جائے اللہ کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا تھا حالانکہ واقعتًا وہ کام کیا گیا تھا! اسی طرح مثلاً زید نے یہ کہا کہ اللہ کی قسم! خالد کے ذمہ میرے ہزار روپے ہیں۔ یا اللہ کی قسم! میرے ذمہ خالد کے ہزار روپے نہیں ہیں حالانکہ حقیقت میں خالد کے ذمہ اس کے ہزار روپے نہیں ہیں یا اس کے ذمہ خالد کے ہزار روپے ہیں۔ غموس کا حکم یہ ہے کہ اس طرح جھوٹی قسم کھانے والا شخص گنہگار ہوتا ہے۔ لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہوتا البتہ توبہ و استغفار ضروری ہوتا ہے لغو اس قسم کو کہتے ہیں کہ جو کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر کھائی جائے اور قسم کھانے والے کو یہ گمان ہو کہ وہ اسی طرح ہے جس طرح میں کہہ رہا ہوں لیکن واقعہ کے اعتبار سے وہ بات اس طرح نہ ہو جس طرح وہ کہہ رہا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ واللہ! یہ کام میں نے نہیں کیا تھا حالا ن کہ اس شخص نے یہ کام کیا تھا مگر اس کو یہی گمان ہے کہ میں نے کام نہیں کیا ہے! یا اس شخص نے دور سے کسی شخص کو دیکھا اور کہا کہ اللہ کی قسم! یہ زید ہے حالانکہ وہ زید نہیں تھا۔ بلکہ خالد تھا لیکن! یہ قسم اس شخص نے یہی گمان کر کے کھائی تھی کہ وہ زید ہے۔ قسم کی اس نوعیت کا حکم یہ ہے کہ اس طرح کھانے والے کے بارے میں امید یہی ہے کہ اس سے مواخذہ نہیں ہوگا۔ منعقدہ اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی آئندہ کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قسم کھائی جائے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم کے خلاف کیا جائے گا تو کفارہ واجب ہوگا۔ مثلاً زید نے یوں کہا کہ! اللہ کی قسم، میں آنے والی کل میں خالد کو سو روپے دوں گا۔ اب اگر اس نے آنے والی کل میں خالد کو سو روپے نہیں دیئے تو اس پر قسم کو توڑنے کا کفارہ واجب ہوگا۔ منعقدہ قسم کی بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، جیسے فرائض کے کرنے یا گناہ کو ترک کرنے کی قسم کھائی جائے، مثلاً یوں کہا جائے کہ اللہ کی قسم! میں ظہر کی نماز پڑھوں گا۔ یا۔ اللہ کی قسم! میں زنا کرنا چھوڑ دوں گا ان صورتوں میں قسم کو پورا کرنا واجب ہے۔ بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کو پورا نہ کرنا واجب ہوتا ہے، جیسے کوئی نادان کسی گناہ کو کرلے یا کسی واجب پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائے تو اس قسم کو توڑنا ہی واجب ہے۔ اسی طرح منعقدہ قسم کی بعض صورتوں میں قسم کو توڑنا واجب تو نہیں ہوتا مگر بہتر ہوتا ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ اللہ کی قسم! میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا تو اس قسم کو پورا نہ کرنا بہتر ہے ان کے علاوہ اور صورتوں میں محافظت قسم کے پیش نظر قسم کو پورا کرنا افضل ہے۔ وجوب کفارہ کے سلسلے میں یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ منعقدہ قسم توڑنے پر بہر صورت کفارہ واجب ہوتا ہے۔ قسم خواہ قصداً کھائی گئی ہو اور خواہ قسم کھانے والے کو قسم کھانے پر یا قسم توڑنے پر زبردستی مجبور کیا گیا ہو۔ قسم کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ بردہ کو آزاد کیا جائے، یا دس مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ ان دونوں ہی صورتوں میں ان شرائط و احکام کو سامنے رکھا جائے جو کفارہ ظہار میں بردہ کو آزاد کرنے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں منقول ہیں اور یا دس مسکینوں کو پہننے کا کپڑا دیا جائے اور ان میں سے ہر ایک کو ایسا کپڑا دیا جائے جس سے بدن کا اکثر حصہ چھپ جائے، لہٰذا اگر صرف پاجامہ دیا جائے گا تو یہ کافی نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی شخص ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت پر بھی قادر نہ ہو یعنی نہ تو بردہ آزاد کرسکتا ہو، نہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو اور نہ دس مسکینوں کو لباس دے سکتا ہو تو پھر وہ تین روزے پے درپے رکھے۔ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دے دینا جائز ہے، کافر کی قسم میں کفارہ واجب نہیں ہوتا اگرچہ وہ حالت اسلام میں اس قسم کو توڑے۔ اسی طرح چونکہ بچے، سوئے ہوئے شخص اور دیوانے کی قسم، سرے سے صحیح ہی نہیں ہوتی اس لئے ان پر قسم توڑنے کا کفارہ بھی واجب نہیں ہوتا۔ قسم کے دیگر احکام و مسائل عربی میں قسم کے لئے تین حروف ہیں۔ ١ و۔ ٢ ب ٣ ت مثلاً یوں کہا جائے واللہ یا باللہ یا تاللہ ان تینوں کا مفہوم یہ ہے۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، عربی زبان و اسلوب کے مطابق بسا اوقات یہ حروف مقدر ہوتے ہیں یعنی لفظوں میں تو ان کا ذکر نہیں ہوتا لیکن حقیقت میں ان کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ جیسے یوں کہا جائے اللہ افعلہ۔ یہ معنی مفہوم کے اعتبار سے واللہ افعلہ ہے۔ قسم باری تعالیٰ کی اسم ذات اللہ کے ساتھ یا اس کے دوسرے ناموں میں سے کسی اور نام مثلاً۔ رحمٰن، رحیم اور حق وغیرہ کے ساتھ کھائی جاتی ہے اور ان ناموں میں سے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں اگر ایسے ناموں کے ساتھ قسم کھائی جائے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی ذات کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے علیم و حکیم وغیرہ تو ان میں نیت کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ان صفات کے ساتھ قسم کھانا بھی صحیح ہے جن کے ساتھ عام طور پر قسم کھانے کا رواج ہو جیسے اللہ کی عزت و جلال کی قسم! اللہ کی بڑائی و بزرگی کی قسم اور اللہ کی عظمت وقدرت کی قسم! ہاں ان صفات کے ساتھ قسم کھانا صحیح نہیں ہوتا۔ جن کے ساتھ قسم کھانے کا عام طور پر رواج نہ ہو، جیسے رحمت، علم، رضا، غضب اور عذاب۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے جیسے باپ اور دادا کی قسم، قرآن کی قسم، انبیاء کی قسم، ملائکہ کی قسم کعبہ کی قسم، نماز روزہ کی قسم، مسجد حرام اور زم زم کی قسم اور دیگر تمام شعائر کی قسم یا اسی طرح بعض لوگ اس طرح قسم کھاتے ہیں اپنی جوانی کی قسم اپنے سر کی قسم، تمہاری جان کی قسم، تمہاری قسم اپنے اولاد کی قسم، یہ سب ناجائز ہے، لیکن اگر اس طرح کی کوئی قسم کھائی جائے اور پھر اس کے خلاف کیا جائے تو قسم توڑنے کا کفارہ دینا پڑے گا۔ عربی میں لعمر اللہ قسم ہے، اسی طرح سوگند اللہ یا اللہ کی سوگند کھاتا ہوں بھی قسم ہے، نیز عبداللہ میثاق اللہ قسم کھاتا ہوں، حلف کرتا ہوں اور اشہد ( اگرچہ اس کے ساتھ لفظ اللہ ذکر نہ کیا جائے) یہ سب بھی قسمیں ہیں۔ اسی طرح کہنا مجھ پر نذر ہے یا مجھ پر یمین ہے یا مجھ پر عہد ہے ( اگرچہ اس کی اضافت اللہ کی طرف نہ کرے) بھی قسم ہے ایسے ہی اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو کافر ہوجاؤں یا یہودی ہوجاؤں یا عیسائی ہوجاؤں یا یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو میں اللہ تعالیٰ سے بری ہوں تو اس طرح کہنے سے بھی قسم ہوجاتی ہے، اس کے خلاف کرنے سے قسم توڑنے کا حکم ثابت ہوجاتا ہے لیکن اپنے کہنے کے مطابق وہ کافر یا یہودی یا عیسائی نہیں ہوجاتا۔ خواہ اس فلاں کام کا تعلق گزشتہ زمانہ سے ہو یا آئندہ زمانہ سے، بشرطیکہ اسے یہ علم ہو کہ اس طرح کہنا قسم ہے، ہاں اگر اس طرح کہتے وقت اس کے ذہن میں قسم کا تصور نہ ہو بلکہ واقعتًا کفر ہی کا تصور رکھتا ہو پھر اس صورت میں اس وجہ سے کہ اس نے خود کفر کو اختیار کیا ہے وہ کافر ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو اس پر اللہ کا غضب ٹوٹے یا اس پر اللہ کی لعنت ہو یا یوں کہے کہ اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو وہ زانی ہے، یا چور ہے، یا شرابی ہے، یا سود خور ہے، تو اس کو قسم نہیں کہیں گے، اسی طرح یہ کہنا حقاً یا وحق اللہ بھی قسم نہیں ہے، لیکن اس میں حضرت امام ابویوسف کا اختلافی قول ہے۔ اسی طرح کہنا کہ میں اللہ کی سوگند کھاؤں یا۔ بیوی پر طلاق کی سوگند کھاؤں بھی قسم نہیں ہے، اگر کوئی شخص اپنی کسی مملوکہ چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو وہ چیز اس پر حرام نہیں ہوجاتی۔ لیکن اس کو استعمال کرنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے اپنے اوپر روٹی کو حرام کرلیا ہے، اس طرح کہنے سے روٹی اس پر حرام نہیں ہوجاتی، لیکن اگر وہ اس کے بعد روٹی کھائے گا تو قسم کا کفارہ دینا لازم ہے۔ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تمام حلال چیزیں مجھ پر حرام ہیں تو اس کا اطلاق کھانے پینے کی تمام چیزوں پر ہوگا یعنی اگر وہ کوئی حلال چیز کھائے گا تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوجائے گا، نیز اس پر فتویٰ ہے کہ اس طرح کہنے سے بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی اگرچہ اس نے اس کی نیت نہ کی ہو، اسی طرح یوں کہنا کہ حلال چیز مجھ پر حرام ہے یا یہ کہنا کہ اپنے دائیں ہاتھ میں جو چیز بھی لوں وہ مجھ پر حرام ہے۔ کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر کوئی شخص قسم کے ساتھ لفظ انشاء اللہ بھی ادا کرے تو وہ حانث نہیں ہوگا یعنی چونکہ وہ سرے سے قسم ہی نہیں ہوگی اس لئے اس کے خلاف کرنے سے کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا۔ یہ تو قسموں کے بارے میں کچھ تفصیل تھی، اب باب کے دوسرے جزو نذر کے متعلق بھی چند باتیں ذہن نشین کرلیجئے۔ نذر اور اس کے احکام نذر منت کو کہتے ہیں یعنی کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینا جو واجب نہیں تھی مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ اے اللہ! اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں پانچ روزے رکھوں گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ نذر ماننا صحیح ہے اور اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے بشرطیکہ وہ نذر کوئی گناہ کی چیز نہ ہو اور اس نذر کا تعلق کسی گناہ کی چیز سے ہو تو حضرت امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک وہ نذر صحیح نہیں ہوگی اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ نذر صحیح نہیں ہوگی بلکہ ایسی نذر ماننے والے پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہے حدیث (لا نذر فی معصیۃ و کفارتہ کفارۃ یمین ) معصیت کی نذر کا کوئی اعتبار نہیں لیکن اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا۔ ملتقی میں لکھا ہے کہ جس شخص نے نذر مانی یعنی اس نذر کو کسی شرط کے ساتھ معلق نہیں کیا مثلاً یوں کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھوں گا۔ یا ایسی نذر مانی جو کسی شرط کے ساتھ متعلق ہو اور وہ شرط بھی ایسی ہو جس کے پورے ہونے کی وہ خواہش و ارادہ رکھتا ہو مثلاً یوں کہے کہ اگر میں صحت یاب ہوجاؤں تو روزے رکھوں گا۔ اور پھر وہ شرط پوری ہوجائے۔ یعنی وہ صحت یاب ہوجائے تو ان دونوں ہی صورتوں میں اس نذر کو پورا کرنا ضروری ہوگا اور اگر اس نے اپنی نذر کو کسی ایسی شرط کے ساتھ متعلق کیا جس کے پورا ہونے کی وہ خواہش نہ رکھتا ہو مثلاً یوں کہے کہ اگر میں زنا کروں تو مجھ پر غلام آزاد کرنا واجب ہوگا۔ تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ چاہے تو قسم کا کفارہ دے اور چاہے اس نذر کو پورا کرے یعنی غلام آزاد کرے۔ نذر کے سلسلے میں دیگر مسائل و احکام تفصیل کے ساتھ فقہ کی کتابوں اور فتاویٰ عالمگیری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ان میں دیکھے جاسکتے ہیں البتہ اس موقع پر نذر کے سلسلہ میں بڑی اور اہم فائدے کی بات ذکر کردینا یقینا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی نذر ماننا جائز نہیں ہے، نہ نبی کی، نہ فرشتے کی، نہ اولیاء اللہ کی نہ کسی اور کی۔ مثلاً یوں کہنا کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو مولود پڑھاؤں گا۔ یا۔ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھاؤں گا۔ یا اگر فلاں کام ہوگیا تو مولیٰ مشکل کشا کا روزہ رکھوں گا۔ اسی طرح غیر اللہ کی نذر ماننا بڑے گناہ کی بات ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق نے اپنی کتاب ماتہ مسائل، معتبر و مستند کتابوں کے حوالہ سے جو مفید اور کار آمد باتیں لکھی ہیں ان سب کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ اس طرح نذر ماننی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نذر ماننے میں چند ایسی شرائط ہیں جو پائی جائیں تو نذر صحیح ہوتی ہے اور اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں تو پھر نذر صحیح نہیں ہوتی۔ ایک شرط تو یہ ہے کہ جو چیز اپنی طرف سے نذر مانی جائے وہ ایسی ہونی چاہئے جس کی جنس شرعی طور پر واجب ہو ( جیسے نماز روزہ وغیرہ) چناچہ اسی لئے اگر کوئی شخص مریض کی عیادت کرنے کی نذر مانے ( یعنی یوں کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں فلاں فلاں مریض کی عیادت کروں گا) تو اس کی نذر صحیح نہیں ہوگی کیونکہ مریض کی عیادت ایسی جنس سے ہے جو شرعاً واجب نہیں ہے۔ تیسری شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ فی الحال یا ثانی الحال اس پر واجب نہ ہو جیسے نماز پنجگانہ۔ اور چوتھی شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ خود کوئی گناہ کی چیز نہ ہو۔ ان شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوا کہ اس طرح نذر ماننا کہ فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا، صحیح نہیں ہے کیونکہ کسی مزار پر روپے یا کھانا پہنچانا کوئی عبادت نہیں ہے، ہاں اگر اس طرح نذر مانی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں فلاں بزرگ کے مزار کے خدام و فقراء کو کھانا کھلاؤں گا تو یہ نذر صحیح ہوگی اور اس کو پورا کرنا لازم ہوگا، لیکن نذر کو پورا کرنے کے لئے اس مزار کے خدام و فقراء کے درمیان تخصیص کرنا ضروری نہیں ہوگا بلکہ جس خادم و فقیر کو بھی کھانا کھلا دے گا تو نذر پوری ہوجائے گی اور اگر یوں کہے کہ اگر میری فلاں حاجت بر آئے گی تو میں فلاں بزرگ کے نام پر یا فلاں بزرگ کے واسطے اتنے روپے یا اتنا کھانا دوں گا ناجائز ہے، اس طرح کی نذر نہ صرف یہ کہ باطل ولغو ہے، بلکہ اس نذر کا روپیہ یا کھانا استعمال کرنا حرام بھی ہے اس مسئلہ کو بحر الرائق میں تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ اور جہاں تک نذر کا سوال ہے تو جیسا کہ مشاہدہ ہے، عام طور پر ( جاہل) لوگ اس طرح نذر مانتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا ( کوئی عزیز) غائب ہوجاتا ہے، یا بیمار ہوجاتا ہے اور یا اس کی ضروری مراد ہوتی ہے تو وہ کسی بزرگ کے مزار پر آتا ہے اور اس کا پردہ اپنے سر پر ڈال کر ( یا قبر کی) چادر پکڑ کر یوں کہتا ہے کہ اے میرے فلاں سردار! اگر میرا وہ عزیز جو غائب ہوگیا ہے واپس ہوگیا، یا اس کو مرض سے صحت یابی ہوگئی اور یا میری فلاں مراد پوری ہوگئی تو میں آپ کے مزار پر اس قدر سونا چڑھاؤں گا یا اس قدر چاندی چڑھاؤں گا، یا اس قدر کھانا چڑھاؤں گا، یا اس قدر پانی چڑھاؤں گا، یا اس قدر شمع یا زیت ( یعنی تیل ( چڑھاؤں گا تو اس طرح نذر ماننا تمام علماء کے نزدیک باطل ہے اور اس کے باطل ہونے کے کئی سبب ہیں، اول تو یہ مخلوق ( یعنی غیر اللہ) کی نذر ہے اور غیر اللہ کی نذر جائز نہیں ہے کیونکہ نذر ( دراصل عبادت ہے) اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے، دوم یہ کہ جس کے نام کی ( یعنی صاحب مزار) کی نذر مانی گئی ہے وہ ایک بےجان ہے اور بےجان مالک نہیں ہوتا۔ سوم یہ کہ اگر ( اسطرح نذر ماننے کے وقت) یہ گمان کیا تھا کہ اللہ کے علاوہ یہ میت ( یعنی صاحب مزار) بھی بندوں کے معاملات میں تصرف کرتا ہے تو ایسا اعتقاد کرنا کفر ہے۔ لہٰذا اے اللہ ( اس بات کی ہدایت دے کہ) اس طرح نذر ماننے کی بجائے یوں نذر مانی جائے کہ اے اللہ میں تیری نذر مانتا ہوں کہ اگر تو میرے بیمار کو شفاء بخشے گا۔ یا میرے غائب عزیز کو واپس کرا دے گا، یا میری مراد کو پوری کرے گا تو میں ( مثلاً ) ان فقراء و خدام کو کھانا کھلاؤں گا، جو بی بی نفیسہ کے دروازے ( یعنی مزار) پر ہیں، یا ان فقراء و خدام کو کھانا کھلاؤں گا جو حضرت امام شافعی یا حضرت امام ابواللیث کے دروازے ( یعنی مزار) پر ہیں یا میں ان کی مسجدوں کے لئے بوریے یا ان کی مسجدوں کی روشنی کے لئے تیل خریدوں گا، یا میں ان لوگوں کو روپے دوں گا، جو ان بزرگوں کی مسجدوں کے شعائر قائم رکھتے ہیں ( یعنی مؤذن اور ائمہ ( یا ان کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز کا ذکر کرے جس میں فقراء و مساکین کا نفع ہو۔ لہٰذا اس طرح نذر ماننے میں نذر تو دراصل اللہ عزوجل کے لئے ہوگی اور بزرگ کا ذکر کرنا محض نذر کے مصرف کو بیان کرنے کے پیش نظر ہوگا اور وہ مصرف نذر کے وہ مستحقین ہیں جو ان بزرگ کی خانقاہ یا ان کی مسجد اور یا ان کی جامع مسجد میں رہتے ہیں پس اس طرح نذر ماننی درست ہے، کیونکہ نذر کے مصرف فقراء ہی ہیں اور وہ مصرف یہاں پایا گیا، نیز نذر کی ہوئی چیز کو مستطیع ( غیر محتاج) پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ کسی شریف النسب پر خرچ کرنا جائز ہے کیونکہ جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو اس کے لئے نذر کی ہوئی چیز کا لینا درست نہیں ہے اور نہ کسی منصب والے پر خرچ کرنا جائز ہے اس کے منصب کی وجہ سے جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو اور نہ کسی اہل علم پر خرچ کرنا جائز ہے، اس کے علم کی وجہ سے جب تک کہ وہ مستحق نہ ہو۔ اور شریعت میں نذر کی ہوئی چیز کا مستطیع لوگوں پر خرچ کرنے کا جواز ثابت نہیں ہے، نیز اس بات پر علماء امت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مخلوق کی نذر ماننا حرام ہے اور اگر کوئی شخص کسی مخلوق ( یعنی بزرگ) کی نذر مانے تو وہ نذر صحیح نہیں ہوتی اور نہ اس نذر کو پورا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے اور وہ نذر نہ صرف حرام بلکہ رشوت کے حکم میں ہے لہٰذا اس بزرگ کے خادم اور مجاور کے لئے اس نذر کا لینا اس کا کھانا اور اس میں کسی طرح کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کوئی خادم یا مجاور محتاج ہو اور اپنے ان نادار بچوں کا کفیل ہو جو کمانے سے معذور ہوں اور وہ حالت اضطرار میں ہوں تو ان کو اس نذر کا مال ابتدائی صدقہ کے طور پر لینا جائز ہے لیکن اس صورت میں بھی اس مال کو اس وقت تک لینا مکروہ ہوگا جب کہ نذر کرنے والے کی نیت اس بزرگ کی نذر سے قطع نظر تقرب الی اللہ اور فقراء پر خرچ کرنے کی نہ ہو! پس جب کہ تمہیں یہ تفصیل معلوم ہوگئی تو ( جان لو) کہ اولیاء اللہ کے تقرب کی نیت سے جو روپے پیسے اور موم بتی وتیل وغیرہ ان کی قبروں پر چڑھایا جاتا ہے وہ تمام مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر حرام ہے جب تک کہ نذر کرنے والا اس کو فقیروں پر خرچ کرنے کی نیت نہ کرے۔ ( النہر الفائق)۔ اور الدر مختار میں بھی اسی طرح منقول ہے۔ حضرت مولانا محمد اسحاق کے مذکورہ منقولات کے علاوہ اس سلسلہ میں مولانا رشید الدین خان مرحوم نے ایک سوال کا جو جواب لکھا ہے۔ وہ بھی اس قابل ہے کہ اس کو مع سوال کہ یہاں نقل کردیا جائے۔
Top