مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3395
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : من كاتب عبده على مائة أوقية فأداها إلا عشر أواق أو قال : عشرة دنانير ثم عجز فهو رقيق . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إذا أصاب المكاتب حدا أو ميراثا ورث بحساب ما عتق منه . رواه أبو داود والترمذي وفي رواية له قال : يودى المكاتب بحصة ما أدى دية حر وما بقي دية عبد . وضعفه الفص الثالث
مکاتب کی طرف سے بدل کتابت کی جزوی عدم ادائے گی کا مسئلہ
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد ( حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص نے اپنے غلام کو سو اوقیہ کے بدلے مکاتب کیا اور اس غلام نے سب اوقیے ادا کردیئے مگر دس اوقیے ادا نہ کرسکا یا یہ فرمایا کہ دس دینار ادا نہ کرسکا ( یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے دس اوقیہ فرمایا تھا یا دس دینار کا ذکر کیا تھا) اور پھر وہ اس باقی کی ادائے گی سے عاجز ہوگیا تو وہ مکاتب ( بدستور) غلام ہی رہے گا۔ ( ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

تشریح
ابن مالک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مکاتب کا اپنے بدل کتابت کے کچھ حصے کی ادائے گی سے قاصر رہنا پورے بدل کتابت کی ادائیگی سے قاصر رہنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مالک کو اس کی کتاب فسخ کردینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے اور فسخ کتابت کے بعد وہ مکاتب بدستور غلام رہتا ہے، نیز حدیث کے الفاظ (فھو رقیق) سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت کا جو کچھ حصہ مالک کو ادا کردیا ہے وہ اس مالک ہی کی ملکیت رہے گا۔ اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی مکاتب دیت یا میراث کا مستحق ہوجائے تو اس کو ( اس دیت یا میراث کا) صرف اس قدر حصہ ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے۔ ( ابوداؤد، ترمذی) اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مکاتب کو دیت میں اس حصہ کے بقدر مال دیا جائے گا جو وہ اپنی آزادی کی قیمت ( یعنی بدل کتابت) میں سے ادا کرچکا تھا اور اس حصہ کے بقدر قیمت دی جائے گی اور ابھی بطور غلام باقی ہے، اس روایت کو ترمذی نے ضعیف کہا ہے۔ تشریح دیت یا میراث کا مستحق ہوجائے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مکاتب کسی دیت یا کسی میراث کا حقدار ہوجائے تو اس دیت یا میراث میں سے اس کو اسی قدر ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاتا ہے کہ زید کسی شخص کا غلام تھا اس کے مالک نے اس کو مکاتب کیا اور زید نے ابھی اپنے بدل کتابت میں سے آدھا ہی حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ اس کا باپ مرگیا جو ایک آزاد شخص تھا لیکن اس نے اپنے اس مکاتب بیٹے یعنی زید کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں چھوڑا تو اس صورت میں زید اپنے مرحوم باپ کی وراثت میں صرف آدھے حصے کا حقدار ہوگا۔ یا دوسری صورت جس کو دوسروں نے بیان کیا ہے، یہ ہو کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت میں سے آدھا حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ کسی نے اس ( زید) کو قتل کردیا تھا، اس صورت میں قاتل اس مکاتب کے آدھے آزاد حصہ کی دیت تو اس کے ورثاء کو ادا کرے گا اور اس کے آدھے غلام حصہ کی دیت جو اس کی قیمت کا بھی آدھا حصہ ہے، اس کے مالک کو ادا کرے مثلاً بکر نے اپنے غلام زید کو ایک ہزار کے بدلے مکاتب کیا ویسے زید نے غلام ہونے کی حی ثیت سے سو روپے کی قیمت کا تھا، مکاتب ہونے کے بعد زید اپنے مالک بکر کو اپنے بدلے کتابت کے مقررہ ایک ہزار روپے میں سے پانچ سو روپے ہی ادا کر پایا تھا کہ کسی شخص نے اس کو قتل کردیا، اس صورت میں قاتل زید کے ورثاء کو پانچ سو روپے ادا کرے گا جو اس کی آزادی کی قیمت ( یعنی بدل کتابت) کا نصف حصہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے مالک بکر کو پچاس روپے ادا کرے گا جو اس کی اصل قیمت کا نصف حصہ ہے۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مکاتب اپنے بدل کتابت میں سے جو مقدار مالک کو ادا کر دے گا اس کے بقدر وہ آزاد ہوجائے گا اور جو مقدار ادا نہیں کرے گا اس کے بقدر غلام رہے گا چناچہ اس حدیث پر صرف امام نخعی نے عمل کیا ہے لیکن جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس کو کسی مسلک کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا بلکہ یہ ان دونوں حدیثوں کے معارض بھی ہے جو اس سے پہلے بروایت حضرت عمرو ابن شعیب نقل ہوچکی ہیں جن سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ مکاتب کے ذمہ جب تک بدل کتابت کا کچھ حصہ بھی باقی رہے گا وہ غلام ہی رہے گا۔
Top