مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3392
وعن سفينة قال : كنت مملوكا لأم سلمة فقالت : أعتقك وأشترط عليك أن تخدم رسول الله صلى الله عليه و سلم ما عشت فقلت : إن لم تشترطي علي ما فارقت رسول الله صلى الله عليه و سلم ما عشت فأعتقتني واشترطت علي . رواه أبو داود وابن ماجه
مشروط آزادی کا ایک واقعہ
اور حضرت سفینہ کہتے ہیں کہ ( ابتداءً ) میں حضرت ام سلمہ کی ملکیت میں تھا ( ایک دن) انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمہیں آزاد کرنا چاہتی ہوں، لیکن یہ شرط عائد کرتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو رسول کریم ﷺ کی خدمت کرتے رہو گے میں نے عرض کیا ( کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت تو میرے لئے سعادت وخوش بختی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے) اگر آپ یہ شرط عائد نہ کرتیں تب بھی میں اپنے جیتے جی رسول کریم ﷺ سے جدا نہ ہوتا چناچہ حضرت ام سلمہ نے مجھے آزاد کردیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت کی شرط مجھ پر عائد کردی۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ)

تشریح
سفینہ نبی کریم ﷺ کے آزد کردہ غلام تھے، لیکن بعض حضرات یہ فرماتے تھے کہ یہ حضرت ام سلمہ کے غلام تھے جو آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں، پھر حضرت ام سلمہ نے ان کو مذکورہ بالا شرط کے ساتھ آزاد کردیا تھا سفینہ کا اصل نام مہران یا رومان اور یا رباح تھا ان کی کنیت ابوعبد الرحمٰن یا ابوالبختری تھی، سفینہ ان کا لقب تھا اور اسی نام کے ساتھ زیادہ مشہور تھے، اس لقب کا پس منظر یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی خدمت کیا کرتے تھے جب غزوات میں جاتے تو لوگوں کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر ادھر ادھر پہنچاتے تھے۔ سفینہ کشتی کو کہتے ہیں جس طرح کشتی بار برداری کے کام آتی ہے اس طرح یہ بھی لوگوں کے بوجھ ڈھوتے تھے، اسی اعتبار سے ان کا لقب سفینہ ہوگیا۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سفینہ اسلامی لشکر کے ہمراہ تھے کہ قافلہ سے بچھڑ گئے اور جنگل میں راستہ بھول گئے، وہ راستہ کی تلاش میں سر گرداں تھے کہ اتنے میں قریب کی جھاڑیوں سے ایک شیر نمودار ہوا اور ان کے سامنے آگیا، انہوں نے شیر کو دیکھتے ہی کہا کہ ابوالحارث! میں سفینہ ہوں جو رسول کریم ﷺ کا آزاد کردہ غلام ہے! یہ سنتے ہی شیر دم ہلانے لگا اور پھر ان کے آگے ہو لیا اور ان کو منزل مقصود تک پہنچا دیا۔
Top