مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3377
غلام کو آزاد کرنے کا بیان۔
آزادی کی شرعی حیثیت شرعی نقطہ نظر سے آزادی دراصل ایک ایسی قوت حکمیہ کا نام ہے جو انسان کو اس کا یہ فطری اور پیدائشی حق دیتی ہے کہ وہ مالک ہونے، سرپرست بننے اور شہادت ( گواہی) دینے کا اہل بن جائے، چناچہ جس انسان کا یہ فطری اور پیدائشی حق مسلوب ہوتا ہے بایں طور کہ وہ کسی غلامی میں ہوتا ہے اور پھر اسے آزادی کی صورت میں یہ قوت حکمیہ حاصل ہوجاتی ہے تو اس میں نہ صرف مالک ہونے کی لیاقت، سرپرست بننے کی قابلیت اور شہادت دینے کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے بلکہ وہ اس قوت حکمیہ یا یہ کہیے کہ اس آزادی کی وجہ سے دوسروں پر تصرف کرنے اور دوسروں کے تصرف کو اپنے سے روکنے پر قادر ہوجاتا ہے اور وہ آزاد و خود مختار انسانوں کی صف میں آکھڑا ہوتا ہے۔ آزاد کرنے کی شرط کسی بردہ ( غلام باندی) کو آزاد کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ آزاد کرنے والا خود مختار ہو بالغ ہو، عقلمند ہو اور جس بردہ کو آزاد کر رہا ہے اس کا مالک ہو آزاد کرنے کی قسمیں غلام کو آزاد کرنا بعض صورتوں میں واجب ہے جیسے کفارہ، بعض صورتوں میں مستحب ہے اور بعض صورتوں میں گناہ بھی ہے، جیسے اگر یہ ظن غالب ہو کہ اگر اس غلام کو آزاد کردیا جائے گا تو یہ دارالحرب بھاگ جائے گا یا مرتد ہوجائے گا یا یہ خوف ہو کہ چوری قزاقی کرنے لگے گا! بعض صورتوں میں مباح ہے۔ جیسے کسی شخص کی خاطر یا کسی شخص کو ثواب پہنچانے کے لئے بردہ کو آزاد کردیا جائے اور بعض صورتوں میں عبادت ہے جیسے کسی بردہ کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے آزاد کیا جائے۔
Top