مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3376
وعن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم خير غلاما بين أبيه وأمه . رواه الترمذي
مدت پرورش کے بعد لڑکے کو ماں باپ میں سے کسی کے بھی پاس رہنے کا اختیار ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک لڑکے کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے اپنے باپ کے پاس رہے اور چاہے اپنی ماں کے پاس رہے۔ (ترمذی)

تشریح
جیسا کہ اس سے پہلے کی حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے یہ لڑکا چونکہ سن تمیز کو پہنچ گیا تھا یعنی بالغ ہوگیا تھا۔ اس لئے اس کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ خواہ اپنے باپ کے پاس چلا جائے۔ خواہ وہ اپنی ماں کے پاس رہے لہٰذا اس کا تعلق حضانتہ (یعنی پرورش کرنے) کے باب اور مسئلہ سے نہیں ہے جب کہ پہلی حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق حضانتہ کے مسئلہ سے ہے اس لئے آپ ﷺ نے حضانتہ یعنی پرورش کرنے کے حق کے بارے میں ماں کو مقدم رکھا۔ چنانچہ حنفیہ کے نزدیک یہی مسئلہ ہے کہ مدت پرورش میں لڑکے کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ چاہے تو اپنی ماں کے پاس رہے اور چاہے تو باپ کے پاس رہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک لڑکے کو مدت پرورش میں بھی یہ اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا خاوند چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے حالانکہ وہ مجھے پانی پلاتا ہے اور نفع پہنچاتا ہے ( یعنی وہ اب اس عمر کو پہنچ گیا ہے کہ میں اس کی خدمت سے فائدہ اٹھاتی ہوں) نبی کریم ﷺ نے ( اس لڑکے سے) فرمایا کہ یہ تمہارا باپ اور یہ تمہاری ماں ہے ان میں سے تم جس کو پسند کرو اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ چناچہ اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئی۔ ( ابوداؤد، نسائی، دارمی) حضرت بلال ابن اسامہ حضرت میمونہ سے کہ جن کا نام سلیمان تھا اور اہل مدینہ میں سے کسی کے آذاد کردہ غلام تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ( ایک دن) جب کہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ہاں بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس فارس کی ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا اور اس کے خاوند نے اس کو طلاق دے دی تھی اور میاں بیوی کے درمیان اس لڑکے کے بارے میں تنازعہ تھا اس عورت نے ابوہریرہ ؓ فارسی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابوہریرہ میرا شوہر میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے! حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ تم دونوں اس پر قرعہ ڈالو ( جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ اس لڑکے کو لے لے) حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی اس عورت کے سامنے اسی مفہوم کو فارسی زبان میں ادا کیا پھر اس عورت کا خاوند آگیا کہ میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کرتا ہے؟ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ یا اللہ! میں یہ بات ( اپنی طرف سے) نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک عورت آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا شوہر چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لے جب کہ یہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے اور ابوعنبہ کے کنوئیں سے مجھ کو پانی اور نسائی میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ ( شہر کے باہر کافی فاصلہ سے) میٹھا پانی ( لاکر) مجھ کو پلاتا ہے۔ یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم دونوں اس پر قرعہ ڈالو خاوند نے کہا کہ میرے بیٹے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑتا ہے؟ پھر رسول کریم ﷺ نے ( اس لڑکے سے) فرمایا یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے ان دونوں میں سے جس کو تم پسند کرو، اس کو ہاتھ پکڑ لو! چناچہ اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ( اور وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئی )۔ ( ابوداؤد، نسائی، دارمی) تشریح حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس عورت سے جو فارسی زبان میں گفتگو کی اس سے معلوم ہوا کہ بعض صحابہ اہل عجم کے ساتھ میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے ان کی زبان سیکھ گئے تھے۔ اس حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی بالغ تھا اور چونکہ بالغ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ چاہے ماں کے پاس رہے اور چاہے باپ کے ساتھ رہے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس کو یہ حق دے دیا اور اس نے ماں کے پاس رہنے کو اختیار کیا، اس لڑکے کے بالغ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ شہر کے باہر بہت دور دور سے پانی بھر کر لاتا تھا اگر وہ نابالغ ہوتا تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی کم سنی کی وجہ سے شہر کے باہر اتنی دور سے پانی بھر لانے کی ہمت نہ کرتا بلکہ اس کی ماں بھی اس خوف سے کہ کہیں یہ اپنی نادانی کی وجہ سے کنوئیں میں گر نہ جائے۔ اس کی اتنی دور سے پانی لانے کے لئے ہرگز نہ بھیجتیں۔
Top