مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3374
وعن البراء بن عازب قال : صالح النبي صلى الله عليه و سلم يوم الحديبية على ثلاثة أشياء : على أن من أتاه من المشركين رده إليهم ومن أتاهم من المسلمين لم يردوه وعلى أن يدخلها من قابل ويقيم بها ثلاثة أيام فلما دخلها ومضى الأجل خرج فتبعته ابنة حمزة تنادي : يا عم يا عم فتناولها علي فأخذ بيدها فاختصم فيها علي وزيد وجعفر قال علي : أنا أخذتها وهي بنت عمي . وقال جعفر : بنت عمي وخالتها تحتي وقال زيد : بنت أخي فقضى بها النبي صلى الله عليه و سلم لخالتها وقال : الخالة بمنزلة الأم . وقال لعلي : أنت مني وأنا منك وقال لجعفر : أشبهت خلقي وخلقي . وقال لزيد : أنت أخونا ومولانا
حضرت حمزہ کی صاحبزادی کی پرورش کا تنازعہ اور اس کا تصفیہ
اور حضرت براء ابن عازب کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کے دن کفار مکہ سے تین باتوں پر صلح کی تھی ایک تو یہ کہ مشرکوں میں جو شخص آپ ﷺ کے پاس آجائے آپ ﷺ اسے واپس فرما دیں گے دوسرے یہ کہ آپ ﷺ آئندہ سال مدینہ سے مکہ تشریف لائیں اور اپنا عمرہ قضا کریں اور ارکان عمرہ کی ادائیگی اور استراحت کے لئے) مکہ میں صرف تین دن قیام فرمائیں چناچہ آئندہ سال جب آپ ﷺ مکہ تشریف لائے اور متعینہ مدت پوری ہوگئی ( یعنی تین دن گزر گئے) اور آپ ﷺ نے مکہ سے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت حمزہ کی بیٹی اے میرے چچا اے میرے چچا کہتی ہوئی آپ ﷺ کے پیچھے لگ گئی، حضرت علی نے اس کو پکڑنے یعنی اپنے ہمراہ لینے کا ارادہ کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا یعنی اپنے ہمراہ لے لیا اس کے بعد حضرت حمزہ کی اس بیٹی کی پرورش کے بارے میں حضرت علی حضرت زید اور حضرت جعفر کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا حضرت علی تو یہ کہتے تھے کہ پہلے میں نے اس بچی کو لیا ہے اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے) اور حضرت جعفر یہ کہتے تھے کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے) نبی کریم ﷺ نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح کیا کہ اس کو اس کی خالہ کے سپرد کردیا جو جعفر کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا کہ خالہ ماں کے برابر ہے پھر آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو یعنی ہم دونوں میں کمال اخلاص و یگانگت ہے اور حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری پیدائش اور میرے خلق میں مشابہ ہو اور حضرت زید سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے محبوب ہو ( بخاری ومسلم)

تشریح
حدیبیہ مکہ سے تقریبا پندرہ میل کے فاصلہ پر بجانب جدہ ایک جگہ کا نام ہے ٦ ھ میں آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کی معیت میں عمرہ کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوئے جب حدیبیہ پہنچے تو کفار مکہ نے وہیں سے روک دیا اور مکہ نہ آنے دیا اور پھر اس مقام پر آنحضرت ﷺ اور کفار مکہ کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت صلح ہوئی جس کی تین بنیادی دفعات کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے یہ صلح حدیبیہ بڑا مشہور واقعہ ہے اور اس کا تفصیلی بیان انشاء اللہ کتاب الجہاد میں آئے گا۔ حضرت حمزہ آنحضرت ﷺ کے چچا اور دودھ شریک بھائی تھے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اور حضرت حمزہ نے ابولہب کی لونڈی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا اسی رشتہ رضاعت کی بناء پر حضرت حمزہ کی بیٹی نے آنحضرت ﷺ کو چچا کہا۔ حضرت جعفر آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی یعنی ابوطالب کے لڑکے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی تھے اور عمر میں حضرت علی ؓ سے دس سال بڑے تھے۔ حضرت زید بن ثابت ایک غلام تھے جن کو آنحضرت ﷺ نے آزاد کیا تھا اور اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا تھا ان سے آنحضرت ﷺ کو بہت محبت تھی چونکہ آپ نے دوسرے صحابہ کی مانند حضرت حمزہ اور حضرت زید کے درمیان بھائی چارہ کا تعلق قائم کردیا تھا اس لئے حضرت زید نے حضرت حمزہ کی بیٹی کو بھتیجی کہا۔ حضرت علی جب حضرت حمزہ کی بیٹی کو مدینہ لے آئے تو اس کی پرورش کے بارے میں مذکورہ بالا تینوں حضرات کے درمیان تنازعہ ہوا ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرتا تھا کہ اس بچی کی پرورش کرنا سب سے زیادہ میرا حق ہے اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ یہ میری تربیت و کفالت میں رہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح فرمایا کہ اس بچی کو اس کی خالہ کی پرورش میں دیدیا جو حضرت جعفر کے نکاح میں تھیں اور ان تینوں حضرات کی تسلی اور ان کا دل خوش کرنے کے لئے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے تاکہ وہ آزردہ نہ ہوں۔
Top