مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 3355
وعن ابن عمر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : من ضرب غلاما له حدا لم يأته أو لطمه فإن كفارته أن يعتقه . رواه مسلم (2/262) 3353 - [ 12 ] ( صحيح ) وعن أبي مسعود الأنصاري قال : كنت أضرب غلاما لي فسمعت من خلفي صوتا : اعلم أبا مسعود لله أقدر عليك منك عليه فالتفت فإذا هو رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : يا رسول الله هو حر لوجه الله فقال : أما لو لم تفعل للفحتك النار أو لمستك النار . رواه مسلم
غلام کو بلا خطا مارنے کا کفارہ
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے غلام کو ایسی سزا دے جس کا کوئی جرم ہی نہیں ہے یعنی بےگناہ مارے یا اس کو طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس غلام کو آزاد کر دے ( مسلم)

تشریح
یوں تو بلا کسی وجہ کے کسی بھی شخص کو طمانچہ مارنا حرام ہے۔ لیکن یہاں بطور خاص غلام کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس کو بلا گناہ مارنے یا اس کے منہ پر طمانچہ لگانے کا تاوان یہ ہے کہ وہ اس غلام کو آزاد کر دے۔ اور حضرت ابومسعود انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے غلام کو پیٹ رہا تھا کہ میں نے اپنی پشت پر یہ آواز سنی ابومسعود! یاد رکھو اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی قدرت تم اس غلام پر رکھتے ہو جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم ﷺ تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! مجھے اپنے اس فعل پر ندامت ہے اب میں اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یاد رکھو اگر تم اس غلام کو آزاد نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کی آگ جلاتی یا فرمایا کہ تمہیں دوزخ کی آگ لگتی (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم نے اپنے غلام کو مار کر ایک بڑا گناہ کیا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ تم نے اس غلام کو آزاد کردیا اور اس گناہ کے بار سے ہلکے ہوگئے ورنہ چونکہ تم نے اس کو ناحق مارا ہے اس لئے اگر یہ تمہارا قصور معاف نہ کرتا تو اس کو آزاد نہ کرنے کی صورت میں تمہیں دوزخ میں ڈالا جاتا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ دراصل اپنے مملوک کے حق میں نرمی کرنے اور ان کے ساتھ حلم ومروت کا معاملہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ جس غلام کو مارا گیا ہے اس کو آزاد کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور وہ بھی بایں امید کہ آزاد کرنا ناحق مارنے کے گناہ کا کفارہ ہوجائے۔
Top