مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3278
وعن أبي سعيد قال : جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ونحن عنده فقالت : زوجي صفوان بن المعطل يضربني إذا صليت ويفطرني إذا صمت ولا يصلي الفجر حتى تطلع الشمس قال : وصفوان عنده قال : فسأله عما قالت فقال : يا رسول الله أما قولها : يضربني إذا صليت فإنها تقرأ بسورتين وقد نهيتها قال : فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لو كانت سورة واحدة لكفت الناس . قال : وأما قولها يفطرني إذا صمت فإنها تنطلق تصوم وأنا رجل شاب فلا أصبر فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تصوم امرأة إلا بإذن زوجها وأما قولها : إني لا أصلي حتى تطلع الشمس فإنا أهل بيت قد عرف لنا ذاك لا نكاد نستيقظ حتى تطلع الشمس قال : فإذا استيقظت يا صفوان فصل . رواه أبو داود وابن ماجه
بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا شوہر صفوان ابن معطل جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتا ہے اور جب روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ تڑوا دیتا ہے اور وہ خود فجر کی نماز اس وقت پڑھتا ہے جب کہ سورج یا تو نکلنے کے قریب ہوتا ہے یا نکل چکا ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ جس وقت صفوان کی بیوی یہ شکایت کر رہی تھی اس وقت صفوان آنحضرت ﷺ کے پاس ہی موجود تھے راوی کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صفوان سے ان کی بیوی کی ذکر کردہ باتوں کے بارے میں پوچھا تو صفوان نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری بیوی کا کہنا کہ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھ کو مارتا ہے اس کیوجہ یہ ہے کہ یہ نماز کی ایک ہی رکعت میں یا دو رکعتوں میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھتی ہے حالانکہ میں نے اس کو لمبی لمبی سورتیں پڑھنے سے منع کیا ہے، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے صفوان کی تصدیق کے لئے فرمایا سورت فاتحہ کے بعد ایک سورت پڑھنا لوگوں کے لئے کافی ہوتا ہے پھر صفوان نے کہا اور اس کا کہنا کہ جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ تڑوا دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روزے رکھے چلی جاتی ہے ( یعنی ہمیشہ نفلی روزے رکھتی ہے رہتی ہے) اور میں ایک جوان آدمی ہوں اور چونکہ رات میں مجھے مباشرت کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے اگر دن میں مجھے جماع کی خواہش ہوتی ہے تو میں صبر نہیں کرسکتا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے پھر صفوان نے کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں سورج نکلنے کے وقت نماز پڑھتا ہوں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم کام کاج والے لوگ ہیں زیادہ رات گئے تک اپنے کھیتوں اور باغوں میں پانی دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے رات میں سونا میسر نہیں ہوتا) اور ہم لوگوں کی یہ عادت ہوگئی ہے کہ جب ہم رات کے آخری حصہ میں سوتے ہیں تو اس وقت جاگتے ہیں جب سورج یا تو نکلنے کے قریب ہوتا ہے یا نکل چکا ہوتا ہے آپ ﷺ نے یہ عذر سن کر فرمایا کہ صفوان جس وقت آنکھ کھلے نماز پڑھ لو (ابوداؤد ابن ماجہ)

تشریح
صفوان زراعت پیشہ آدمی تھے اور بہت رات گئے تک اپنے کھیتوں اور باغوں میں پانی دیتے تھے اور پھر وہیں پڑ کر سو جاتے تھے اور چونکہ وہاں جگانے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اس لئے ان کی آنکھ دیر سے کھلتی تھی اس اعتبار سے وہ گویا معذور تھے لہذا آپ ﷺ نے ان کے عذر کی بناء پر ان کو حکم دیا کہ اگر تمہاری آنکھ وقت پر نہ کھل سکے تو جب بھی جاگو پہلے نماز پڑھو اس کے بعد کسی اور کام میں لگو
Top