مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3261
وعن عائشة قالت : كنت أغار من اللاتي وهبن أنفسهن لرسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : أتهب المرأة نفسها ؟ فلما أنزل الله تعالى : ( ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك ) قلت : ما أرى ربك إلا يسارع في هواك . متفق عليه . وحديث جابر : اتقوا الله في النساء وذكر في قصة حجة الوداع
آنحضرت ﷺ کے ایلاء کا واقعہ
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی جو اپنے نفس کو رسول اللہ کے لئے ہبہ کردیتی تھیں چناچہ میں کہا کرتی تھی کہ کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کرسکتی ہے؟ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی۔ اے محمد! ان عورتوں میں سے جس کو آپ چاہیں علیحدہ کردیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جن عورتوں کو آپ نے علیحدہ کردیا ہے اگر ان میں سے کسی کو آپ بلائی تو کوئی گناہ نہیں۔ تو میں نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ کا پروردگار آپ ﷺ کی مرضی و خواہش کو جلد پورا کردیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
جو عورتیں اپنا نفس آنحضرت ﷺ کو ہبہ کردیتی تھیں ان کو حضرت عائشہ اس لئے اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں کہ کسی عورت کا اپنے نفس کو کسی غیر مرد کو ہبہ کردینا گویا عورت کی عزت و شرف کے منافی ہے اور اس کی حرص و قلت حیاء پر دلالت کرتا ہے اگرچہ جو عورتیں آنحضرت ﷺ کو اپنا نفس ہبہ کردیتی تھیں ان عورتوں کے نقطہ نظر سے اور واقعۃً بھی ان کا یہ ہبہ ان کے لئے باعث عزت ہوتا تھا جسے وہ اپنی خوش قسمتی تصور کرتی تھیں۔ کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کرسکتی ہے حضرت عائشہ یہ بات ان عورتوں کے ہبہ کی مخالفت میں کہا کرتی تھیں جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کسی عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنا نفس کسی غیر مرد کو ہبہ کر دے اور ایک روایت میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ کیا عورت اپنا نفس ہبہ کرتے ہوئے کوئی شرم و حیاء محسوس نہیں کرتی؟ مذکورہ آیت کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنا ہم بستر بنائیں اور جس کو چاہیں اپنے سے الگ رکھیں یا یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنے نکاح میں باقی رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نکاح سے الگ کردیں یعنی طلاق دے دیں اور یا یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ اپنی امت کی عورتوں میں جس سے چاہیں نکاح کرلیں اور جس سے چاہیں نکاح نہ کریں۔ اور امام بغوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت دراصل اس آیت (لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَا ءُ مِنْ بَعْدُ ) 33۔ الاحزاب 52) کی ناسخ ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی وفات تک آپ ﷺ کے لئے ازواج مطہرات کے علاوہ اور بھی عورتیں مباح رکھی تھیں۔ مشہور مفسر امام بغوی یہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ آیت کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ آیت دراصل آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کی باری کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنا پہلے آنحضرت ﷺ پر بھی واجب تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ وجوب آپ کے حق میں ساقط ہوگیا اور آپ ﷺ کو اختیار مل گیا کہ اپنی بیویوں کو آپ ﷺ نے باری سے الگ کردیا ہے اور ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلانا اور ہم بستر ہونا چاہیں تو آپ ﷺ ایسا کرسکتے ہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے امت کے دوسرے مردوں پر آپ ﷺ کی فضیلت و برتری ظاہر کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنے کے حکم پر عمل نہ کرنا آپ کے لئے مباح کردیا کہ جس بیوی کے بارے میں آپ ﷺ کی خواہش ہو اسے آپ ﷺ اس کی باری کے و علاوہ بھی اپنا ہم بستر بنا سکتے ہیں اور اگر ﷺ اپنی کسی بیوی کو اس باری میں بھی اپنے پاس سلانا نہ چاہیں تو آپ ﷺ کے لئے اس کی بھی اجازت ہے۔ ( ما اریٰ ربک) الخ کے معنی یہ ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ آپ ﷺ جس چیز کی خواہش کرتے ہیں آپ ﷺ کا پروردگار اسے جلد پورا کردیتا ہے۔ علامہ نووی کہتے ہیں اس بات سے حضرت عائشہ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض احکام کی پابندی کو آپ ﷺ کے حق میں نرم کردیتا ہے اور آپ ﷺ کو اس پر عمل نہ کرنے کی آسانی فرما دیتا ہے اسی لئے مذکورہ بالا معاملہ میں بھی آپ ﷺ کو اپنی مرضی و خواہش کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون خاتون تھیں جنہوں نے اپنا نفس آپ ﷺ کو ہبہ کیا تھا؟ چناچہ بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ تھیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ حضرت ام شریک تھیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ حضرت زینب بنت خزیمہ تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ خولہ بنت حکیم تھیں لیکن اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک خاتون نہیں تھیں بلکہ وہ کئی عورتیں تھیں۔ وحدیث جابر (اتقوا اللہ فی النساء ذکر فی قصۃ حضۃ الوداع)۔ اور حضرت جابر کی حدیث (اتقو اللہ فی النساء) الخ حجۃ الوداع کے بیان میں نقل کی جا چکی ہے۔
Top