مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3260
وعن جابر قال : دخل أبو بكر رضي الله عنه يستأذن على رسول الله صلى الله عليه و سلم فوجد الناس جلوسا ببابه لم يؤذن لأحد منهم قال : فأذن لأبي بكر فدخل ثم أقبل عمر فاستأذن فأذن له فوجد النبي صلى الله عليه و سلم جالسا حوله نسائه واجما ساكتا قال فقلت : لأقولن شيئا أضحك النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله لو رأيت بنت خارجة سألتني النفقة فقمت إليها فوجأت عنقها فضحك رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال : هن حولي كما ترى يسألنني النفقة . فقام أبو بكر إلى عائشة يجأ عنقها وقام عمر إلى حفصة يجأ عنقها كلاهما يقول : تسألين رسول الله صلى الله عليه و سلم ما ليس عنده ؟ فقلن : والله لا نسأل رسول الله صلى الله عليه و سلم شيئا أبدا ليس عنده ثم اعتزلهن شهرا أو تسعا وعشرين ثم نزلت هذه الآية : ( يا أيها النبي قل لأزواجك ) حتى بلغ ( للمحسنات منكن أجرا عظيما ) قال : فبدأ بعائشة فقال : يا عائشة إني أريد أن أعرض عليك أمرا أحب أن لا تعجلي فيه حتى تستشيري أبويك . قالت : وما هو يا رسول الله ؟ فتلا عليها الآية قالت : أفيك يا رسول الله أستشير أبوي ؟ بل أختار الله ورسوله والدار الآخرة وأسألك أن لا تخبر امرأة من نسائك بالذي قلت : قال : لا تسألني امرأة منهن إلا أخبرتها إن الله لم يبعثني معنتا ولا متعنتا ولكن بعثني معلما ميسرا . رواه مسلم
آنحضرت ﷺ کے ایلاء کا واقعہ
اور حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ جس زمانہ میں آنحضرت ﷺ اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کی علیحدگی اختیار کئے ہوئے مکان میں گوشہ نشین تھے تو ایک دن حضرت ابوبکر ؓ آئے اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت کے طلب گار ہوئے انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر لوگ جمع ہیں۔ اور کسی کو حاضر ہونے کی اجازت نہیں مل رہی مگر حضرت ابوبکر ؓ کو اجازت مل گئی اور وہ آپ ﷺ کی خدمت میں چلے گئے پھر حضرت عمر فاروق ؓ آئے اور انہوں نے حاضر ہونے کی اجازت مانگی ان کو بھی اجازت مل گئی چناچہ حضرت عمر ؓ جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو اس حالت میں پایا کہ آپ ﷺ کے اردگرد آپ ﷺ کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ ﷺ اس وقت غمگین اور خاموش تھے حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے یہ صورت حال دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ اس وقت مجھے کوئی ایسی بات کہنی چاہئے۔ جس سے نبی کریم ﷺ ہنس پڑیں، چناچہ انہوں کہا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ دیکھیں کہ خارجہ کی بیٹی یعنی میری بیوی مجھ سے روٹی پانی کا خرچ معمول سے زیادہ طلب کرے تو میں کھڑا ہو کر اس کی گردن پر مار لگاؤں۔ حضرت عمر نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ آنحضرت ﷺ ہنس پڑے اور پھر فرمایا کہ یہ میری عورتیں جنہیں تم میرے اردگرد بیٹھی دیکھ رہے مجھ سے معمول سے زیادہ خرچ مانگ رہی ہیں یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ کی گردن پر مارنے لگے، اسی طرح حضرت عمر بھی کھڑے ہوئے اور وہ بھی اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کی گردن پر مارنے لگے اور پھر ان دونوں یعنی حضرت ابوبکر و عمر ؓ نے کہا کہ کیا تم آنحضرت ﷺ سے اس چیز کا مطالبہ کر رہی ہو جو آپ ﷺ کے پاس موجود نہیں ہے یعنی یہ بات کتنی غیر مناسب ہے کہ تم آنحضرت ﷺ کی مالی حالت جانتی ہو اور اس کے باوجود آپ ﷺ سے اتنے خرچ کا مطالبہ کرتی ہو جس کو آپ ﷺ پورا کرنے پر قادر نہیں ہیں کیا تمہارا یہ مطالبہ آنحضرت ﷺ کو پریشانی میں مبتلا کرنے کے مترادف نہیں ہے ان عورتوں نے کہا کہ بیشک ہم نے بےجا مطالبہ کیا تھا جس پر ہم نادم ہیں اور آئندہ کے لئے ہم عہد کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم اب ہم کبھی بھی آپ ﷺ سے اس چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ ﷺ کے پاس نہ ہو۔ لیکن آپ ﷺ نے چونکہ علیحدگی کی قسم کھالی تھی اس لئے اس قسم کو پورا کرنے کے لئے آپ ﷺ ایک مہینہ تک یا انتیس دن تک اپنی بیویوں سے علیحدہ رہے (اس جگہ حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا کہ حضرت جابر نے یہاں ایک مہینہ کہا تھا یا انتیس دن کہا تھا) پھر یہ آیات۔ (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا 29) 33۔ الاحزاب 28۔ 29)۔ تک نازل ہوئی حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ رابطہ قائم کیا کیونکہ تمام ازواج مطہرات میں وہی سب سے زیادہ عقل مند اور افضل تھیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ عائشہ میں تمہارے سامنے ایک بات پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم اس کا جواب دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! فرمائیے وہ کیا بات ہے؟ آنحضرت ﷺ نے ان کے سامنے مذکورہ بالا آیت پڑھی، حضرت عائشہ نے یہ آیت سن کر کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں آپ ﷺ کے معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ لوں یعنی مشورہ تو اس معاملہ میں کیا جاتا ہے جس میں کوئی تردد ہو جب کہ اس معاملہ میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے۔ بلکہ میں اللہ اور اللہ کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرلیا یعنی میں اس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی و خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہوں کہ اسی میں میرے لئے دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی ہے مگر میں آپ ﷺ سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ اس وقت میں نے آپ ﷺ سے جو کچھ عرض کیا ہے اس کا ذکر اپنی کسی اور بیوی سے نہ کریں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی بیوی مجھ سے یہ پوچھے گی تو میں اس کے سامنے ضرور ذکر کروں گا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں کسی کو رنج پہنچاؤں یا کسی کو خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا کروں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں مخلوق اللہ کو دین کے احکام سکھاؤں اور آسانی (یعنی دینی دنیوی راحت) سے ہمکنار کروں (مسلم)

تشریح
حضرت عمر ؓ نے آپ ﷺ کو اس حال میں پایا الخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پردہ واجب ہونے سے پہلے کا ہے کیونکہ اگر پردہ واجب ہوچکا ہوتا تو نہ حضرت عمر ؓ اس طرح زنانہ خانہ میں عورتوں کے سامنے جاتے اور نہ عورتیں ان کے سامنے ہوتیں۔ جس سے نبی کریم ﷺ ہنس پڑیں اس سے حضرت عمر ؓ کا مقصد یہ تھا کہ میں کوئی دلچسپ بات کہہ دوں جس سے آنحضرت ﷺ کا غم و ملال زائل ہوجائے اور آپ ﷺ خوش ہوجائیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ مستحب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست و عزیز کو غمگین دیکھے تو وہ اس کے سامنے کوئی بات ذکر کرے جس سے وہ ہنس پڑے اور خوش ہوجائے اور خود بھی اس بات میں شریک ہو کر اپنا رنج و غم بھول جائے چناچہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ جب اپنے کسی صحابی کو غمگین دیکھتے تو اس کو خوش طبعی اور ہنسی مذاق کے ذریعہ خوش کردیتے تھے۔ حدیث میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے ا یت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا 29) 33۔ الاحزاب 29-28)۔ اے پیغمبر ﷺ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ (میں نے تو فقر کو اختیار کیا ہے) اگر تم میرے فقر پر راضی نہیں ہو بلکہ دنیا کی آرام دہ زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو مجھے بتادو اور آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کر دوں (یعنی ہمیشہ کے لئے تم سے علیحدگی اختیار کرلوں) اور اگر تم میرے فقر پر راضی ہو اور یہ چاہتی ہو کہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا مندی حاصل ہو اور جنت تمہارا ٹھکانا بنے تو سن لو کہ تم میں جو نیکو کاری کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (یعنی تمہاری اس مشقت کے عوض جو تمہیں میری فقروفاقہ کی زندگی کی رفیق بننے میں اٹھانی پڑے گی اللہ تعالیٰ تمہیں بےاندازہ اجر وثواب عطا کرے گا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنی بیویوں میں سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ رابطہ قائم کیا اور ان کے سامنے اس آسمانی ہدایت کو رکھنے سے پہلے ان پر واضح کردیا کہ میں تمہارے سامنے جو ہدایت و ضابطہ رکھنے والا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے والدین سے مشورہ کا حکم اس لئے دیا کہ حضرت عائشہ اگرچہ سب سے زیادہ سمجھدار اور عقل مند تھیں مگر بہرحال صغیر السن تھیں آپ ﷺ کو یہ خوف تھا کہ کہیں عائشہ کم عمری کے جذبات میں نہ بہہ جائیں اور وہ دنیا کی عیش و عشرت کی خاطر مجھے چھوڑ کر آخرت کی ابدی سعادتوں سے منہ نہ موڑ لیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس سے صرف عائشہ ہی کو نقصان اور تباہی سے دو چار ہونا نہیں پڑے گا، بلکہ ان کے والدین کو بھی سخت اذیت اور تکلیف پہنچے گی لیکن اگر اس معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ کریں تو وہ انہیں وہی صلاح دیں گے جو ان کی دنیا اور ان کے دین کی بھلائی اور بہتری کے مطابق ہوگی۔ مگر یہ حجرت عائشہ کی فطری سعادت کی بات تھی کہ انہوں نے اپنے والدین کے مشورہ کے بغیر اپنا یہ فیصلہ سنا دیا کہ میں دنیا کی آرام دہ زندگی پر آخرت کی ابدی سعادتوں کو ترجیح دیتی ہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی مرضی و منشا ہی کو اختیار کرتی ہوں۔ حضرت عائشہ نے آنحضرت ﷺ سے یہ جو درخواست کی کہ میں نے آپ ﷺ کو جو کچھ جواب دیا ہے وہ آپ ﷺ اپنی کسی اور بیوی سے ذکر نہ کریں تو ان کا یہ خیال تھا کہ شاید اس موقعہ پر کوئی بیوی آپ ﷺ کے فقر پر راضی نہ ہو کہ دنیا کی آرام دہ زندگی کے لئے آپ ﷺ سے علیحدہ ہوجائے اس لئے انہوں نے سوچا کہ اگر کسی بیوی کو میرے اس ایمان و یقین سے بھرپور فیصلہ کا علم ہوا تو شاید اسے بھی راہنمائی مل جائے اور وہ بھی ایسا ہی فیصلہ کرے لیکن اگر میرے اس فیصلہ سے لاعلمی رہے گی تو بہت ممکن ہے کہ کوئی بیوی دنیا کے عیش و آرام کو آنحضرت ﷺ کی پر مشقت رفاقت پر ترجیح دے اس لئے اچھا ہی ہوگا اگر کوئی بیوی آنحضرت ﷺ کے نکاح سے نکل جائے گویا حضرت عائشہ کی اس خواہش کا محرک آنحضرت ﷺ سے ان کی وہ بےپناہ محبت تھی جس میں وہ کسی دوسری عورت کو شریک دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ لیکن بہرحال رسول کریم ﷺ کی نظر میں تمام بیویوں کی بھلائی و برائی یکساں حیثیت رکھتی تھی، آپ ﷺ یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے کہ ایک بیوی تو آخرت کی سعادتوں سے نوازی جائے اور دوسری بیوی دنیا کو اختیار کر کے تباہی کے راستہ پر لگ جائے چناچہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور ان پر واضح کردیا، کہ مجھ سے جو بھی بیوی پوچھے گی میں اس کو بتادوں گا کیونکہ اس کی بھلائی اسی میں پوشیدہ ہے اگر میں کسی کو نہ بتاؤں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس تئیں شفقت کا رویہ نہیں اپنایا اور اس کو وہ راستہ نہیں دکھایا جو اس کی راحت، اس کی بھلائی اور اس کی اخروی فلاح کے لئے ضروری ہے حالانکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث نہیں کیا ہے کہ میں لوگوں کے حق میں بدخواہی کروں یا کسی کو تکلیف و مصیبت اور رنج و غم میں مبتلا کروں اس دنیا میں اس لئے آیا ہوں کہ کائنات انسانی کے ہر فرد کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی تعلیم دوں اور ہر انسان کو اس کے دینی دنیاوی معاملات میں آسانی و سہولت کی راہ دکھاؤں۔
Top