مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3259
وعن أنس قال : آلى رسول الله من نسائه شهرا وكانت انفكت رجله فأقام في مشربة تسعا وعشرين ليلة ثم نزل فقالوا : يا رسول الله آليت شهرا فقال : إن الشهر يكون تسعا وعشرين . رواه البخاري
ایلاء کا مطلب
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا اور اسی زمانہ میں آپ ﷺ کے پاؤں میں موچ آگئی تھی چناچہ آپ ﷺ انتیس راتوں تک بالاخانہ ہی پر رہے پھر جب آپ ﷺ نیچے تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے تو ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا اور مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے پھر آپ انتیس دن کے بعد کیوں اتر آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ (بخاری)

تشریح
ایلاء کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس بات کی قسم کھائے کہ میں چار مہینہ یا اس سے زیادہ تک اپنی بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا یعنی اس سے جماع نہیں کروں گا اگر قسم پوری ہوجائے یعنی وہ شخص اپنی قسم کے مطابق چار مہینہ تک یا اس سے بھی زائد اس مدت تک جو اس نے متعین کی ہو، اپنی بیوی کے پاس نہ جائے تو طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور اگر وہ قسم پوری نہ کرے یعنی اس مدت کے پوری ہونے سے پہلے بیوی کے پاس چلا جائے تو ایلاء ساقط ہوجاتا ہے اور اس پر قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ واجب ہوجاتا ہے یا جزا لازم ہوجاتی ہے اور اگر کسی شخص کے نکاح میں کسی کی لونڈی ہو یعنی اس کی بیوی آزاد عورت نہ ہو بلکہ کسی کی لونڈی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرے تو اس کی کم سے کم مدت بجائے چار مہینہ کے دو مہینہ ہوگی اور اگر کسی شخص نے آزاد عورت کے حق میں چار مہینہ سے کم اور لونڈی کے حق میں دو مہینہ سے کم مدت کے لئے قسم کھائی تو یہ ایلاء شرعی نہیں کہلائے گا چناچہ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کی طرف جس ایلاء کی نسبت کی گئی ہے وہ شرعی ایلاء نہیں ہے۔ بلکہ ایلاء لغوی مراد ہے یعنی آپ ﷺ نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا جس کا سبب یہ تھا کہ آپ ﷺ کی بیویوں نے آپ ﷺ سے کچھ زیادہ نفقہ کا مطالبہ کیا تھا جس سے آپ ﷺ کو سخت ناگواری ہوئی اور آپ ﷺ نے قسم کے ساتھ یہ عہد کیا کہ میں ان بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا انہیں دنوں میں یہ حادثہ پیش آیا کہ آپ ﷺ گھوڑے سے گرپڑے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کے پائے مبارک میں چوٹ آگئی پھر آپ ﷺ ایک مہینہ بالا خانہ پر ہی رہے نیچے نہیں آئے مگر وہ مہینہ غالباً انتیس دن کا تھا اس لئے آپ ﷺ نے انتیس دن پر اکتفا کیا اور نیچے تشریف لے آئے۔
Top