مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3246
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي
اپنی بیویوں کے درمیان عدل وبرابری نہ کرنیوالے کے بارے میں وعید
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے نکاح میں ایک سے زائد مثلا) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط ہوگا ( ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

تشریح
جس شخص کے ہاں ایک سے زائد بیویاں ہوں خواہو وہ دو ہوں اور خواہ تین یا چار ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو اس کی اس بےانصافی پر مذکورہ بالا سزا کی دھمکی دی گئی ہے لہذا باری میں برابری کرنا بایں اعتبار سے واجب ہے کہ رات جتنا حصہ ایک بیوی کے ہاں گزارتا ہو اتنا ہی حصہ دوسری بیوی کے ہاں بھی گزارنا چاہئے مثلا اگر ایک بیوی کے ہاں مغرب کے بعد چلا جاتا ہے تو دوسری بیوی کے ہاں بھی مغرب کے بعد ہی چلا جائے اگر اس کے پاس عشاء کے بعد جائے گا تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہوگا یہاں صحبت کے معاملہ میں برابری کرنا واجب نہیں ہے۔ اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حکم میں باکرہ، ثیبہ، نئی، پرانی مسلمان اور کتابیہ سب برابر ہیں اور سب کے حقوق یکساں ہیں البتہ آزاد عورت کی بہ نسبت لونڈی، کا تبہ، مدبرہ اور ام ولد کیلئے آدھی باری ہے یعنی اگر کسی شخص کے نکاح میں ایک آزاد عورت ہو اور کسی کی لونڈی وغیرہ سے بھی اس نے نکاح کر رکھا ہو تو لونڈی وغیرہ کے پاس ایک رات رہے اور آزاد عورت کے پاس دو راتیں رہے! حرم (باندی) کے لئے باری مقرر کرنا واجب نہیں ہے۔
Top