مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3245
عن عائشة : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يقسم بين نسائه فيعدل ويقول : اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي
کوئی شخص اپنی تمام بیویوں سے یکساں محبت کرنے پر مجبور نہیں ہے
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر فرماتے اور عدل سے کام لیتے ( یعنی ان کے پاس رات رہنے کے سلسلہ میں برابری کا خیال رکھتے) اور پھر اس احتیاط و عدل کے باوجود یہ دعا مانگا کرتے کہ اے اللہ جس چیز کا میں مالک ہوں اس میں باری مقرر کردی ہے لہذا جس کا تو مالک ہے میں مالک نہیں ہوں اس پر مجھے ملامت نہ کیجئے! (ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ دارمی)

تشریح
دعا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے پاس جانے کی باری مقرر کرنے اور ان کے نان نفقہ کا میں مالک ہوں لہذا ان چیزوں میں عدل و برابری کرنا میری ذمہ داری ہے جسے میں پورا کرتا ہوں اور کسی بھی بیوی کے ساتھ ناانصافی یا اس کی حق تلفی نہیں کرتا ہاں پیار و محبت کا معاملہ دل سے متعلق ہے جس پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں اس میں برابری نہیں کرسکتا اس لئے اگر مجھے کسی بیوی سے زیادہ محبت اور کسی سے کم محبت ہو تو چونکہ میرے قصد و ارادہ کو دخل نہیں ہوگا لہذا اس پر مجھ سے مؤ اخذہ نہ کیجئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ ان بیویوں کے پاس جائے ان کے ہاں شب گزارے اور ان کے نان و نفقہ میں پورا پورا عدل کرے اور ان چیزوں میں ان کے درمیان اس طرح برابری کرے کہ کسی بھی بیوی کو فرق و امتیاز کی شکایت نہ ہو ہاں پیار و محبت مباشرت و جماع اور جنسی لطف حاصل کرنے کے بارے میں عدل و برابری لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ چیزیں دل و طیبعت سے متعلق ہیں جس پر کسی انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔
Top