مشکوٰۃ المصابیح - مباشرت کا بیان - حدیث نمبر 3212
وعنها : أن بريرة عتقت وهي عند مغيث فخيرها رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال لها : إن قربك فلا خيار لك . رواه أبو داود وهذا الباب خال عن الفصل الثالث
اگر لونڈی اپنی مرضی سے نکاح کرے تو آزاد ہونے کے بعد فسخ نکاح کا اختیار اسے حصل نہیں ہوتا
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ بریرہ اس حال میں آزاد ہوئی تھی کہ وہ مغیث کے نکاح میں تھی چناچہ رسول کریم ﷺ نے اسے اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار دیدیا لیکن یہ بھی فرما دیا کہ اگر تیرا شوہر تجھ سے جماع کرے گا تو تجھے یہ اختیار حاصل رہے گا کیونکہ اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ تو اس کی زوجیت پر راضی ہے (ابوداؤد)

تشریح
ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کسی لونڈی نے اپنے مالک کی رضا مندی سے اپنا نکاح کیا یا اس کے مالک نے اس کا نکاح اس کی رضامندی سے یا اس کی رضامندی کے بغیر کردیا اور پھر وہ لونڈی آزاد ہوگئی تو اس کو اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے خواہ اس کا خاوند ہو یا غلام ہو اور اگر لونڈی اپنے مالک کی رضا مندی و اجازت کے بغیر اپنا نکاح خود کرے اور پھر اس کا مالک اس کو آزاد کر دے تو آزاد ہوتے ہی اس کا نکاح منعقد یعنی صحیح ہوجاتا ہے لیکن اسے مذکورہ اختیار حاصل نہیں رہتا۔ ائمہ ثلاثہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر لونڈی کسی آزاد کے نکاح میں ہو تو آزاد ہونے کے بعد اس لونڈی کو اپنے نکاح کے باقی یا فسخ کردینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ بریرہ کے خاوند کے بارے میں متعارض روایتیں منقول ہیں۔ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت بریرہ کو اس حال میں اختیار دیا تاکہ اس کا شوہر غلام تھا لیکن بخاری ومسلم ہی میں یہ بھی منقول ہے کہ جب بریرہ کو آزاد کیا گیا تو اس کا شوہر ایک آزاد مرد تھا۔ اسی طرح کی روایت سنن اربعہ یعنی ابوداؤد ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے بھی نقل کی ہے نیز ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا ہے، لہذا ائمہ ثلاثہ نے تو پہلی روایت کو ترجیح دی ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ نے دوسری روایت کو راجح قرار دیا ہے۔ ملا علی قاری نے ابن ہمام کے اس قول کو مرقاۃ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، یہاں طوالت کے خوف سے اس کا خلاصہ نقل کردیا گیا ہے۔
Top