مشکوٰۃ المصابیح - جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان - حدیث نمبر 3187
وعن عائشة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة . رواه البخاري (2/217) 3162 - [ 3 ] ( متفق عليه ) وعنها قالت : جاء عمي من الرضاعة فاستأذن علي فأبيت أن آذن له حتى أسأل رسول الله صلى الله عليه و سلم فجاء رسول الله صلى الله عليه و سلم فسألته فقال : إنه عمك فأذني له قالت : فقلت : يا رسول الله إنما أرضعتني المرأة ولم يرضعني الرجل فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إنه عمك فليلج عليك وذلك بعدما ضرب علينا الحجاب
حرمت رضاعت کا ذکر
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دودھ پینے کی وجہ سے وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو پیدائش کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ( بخاری)

تشریح
یعنی جو رشتے نسب کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے حرام ہیں وہی رشتے دودھ پینے کی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے لئے حرام ہوجاتے ہیں مثلا جس طرح نسبی یعنی حقیق بہن اپنے بھائی کے لئے حرام ہے اسی طرح رضاعی بہن بھی حرام ہے۔ ہاں کچھ مسائل ایسے ہیں جو اس کلیہ سے مستثنی ہیں چناچہ بعض صورتوں میں نسبی رشتہ اور رضاعی رشتہ کے درمیان فرق ہوجاتا ہے جس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔ علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگرچہ رضاعت سے نکاح حرام ہوجاتا ہے اور نظر و خلوت اور مسافرت حلال ہوجاتی ہے ( یعنی مثلا رضاعی ماں بیٹے کے درمیان نکاح تو حرام ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے کی طرف نگاہ ڈالنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں اٹھنا بیٹھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تنہا سفر کرنا جائز ہوجاتا ہے لیکن رضاعی رشتہ پر نسبی رشتہ کے تمام احکام نافذ نہیں ہوتے چناچہ رضاعی رشتہ میں نہ تو ایک دوسرے کا وراث ہوتا ہے، نہ ایک دوسرے پر نان و نفقہ واجب ہوتا ہے، نہ ایک دوسرے کی ملکیت میں آجانے سے آزادی مل جاتی ہے اور اگر دودھ پلانیوالی اپنا دودھ پینے والے کو قتل کر دے تو اس کے ذمہ سے اس کا قصاص بھی ساقط نہیں ہوتا چناچہ ان تمام صورتوں میں وہ دونوں رضاعی رشتہ دار بالکل اجنبیوں کی طرح ہوتے ہیں اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن میرے رضاعی چچا میرے گھر آئے اور انہوں نے میرے پاس آنی کی اجازت مانگی میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کردیا تاکہ میں رسول کریم ﷺ سے پوچھ لوں کہ ان کا میرے پاس آنا درست ہے یا نہیں) چناچہ جب رسول کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیدو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا تھا کسی مرد نے تو دودھ نہیں پلایا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تمہارے چچا ہیں اس لئے وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں (حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ) میرے رضاعی چچا کی یہ آمد اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ ہمارے لئے اجنبی مردوں سے پردہ کرنا واجب ہوچکا تھا ( بخاری ومسلم) تشریح حضرت عائشہ کے جن رضاعی چچا کا ذکر کیا گیا ہے ان کا نام افلح تھا اور حضرت عائشہ نے جس عورت کا دودھ پیا تھا اس کے خاوند ابوالقیس تھے اور وہ افلح کے بھائی تھے۔ اس رشتہ سے وہ حضرت عائشہ کے رضاعی چچا ہوئے۔ مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا الخ، سے حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ میں نے چونکہ عورت کا دودھ پیا ہے اس لئے میرا رضاعت کا تعلق تو عورت سے قائم ہوا ہے نہ کہ مرد سے گویا حضرت عائشہ یہ سمجھتی تھیں کہ کسی عورت کا دودھ پلانا اس کے خاوند کے قرابت داروں سے رضاعت کا تعلق قائم نہیں کرتا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ کے اس گمان کی تصحیح کی کہ کسی عورت کا دودھ پلانا جس طرح اس عورت سے اور اس کے قرابت داروں سے رضاعت کا رشتہ قائم کرتا ہے اسی طرح اس کے خاوند اور خاوند کے قرابت داروں سے بھی رضاعی تعلق پیدا کردیتا ہے اور جس طرح رضاعی ماں کی بہن رضاعی خالہ اور اس کی بیٹی رضاعی بہن ہوتی ہے اسی طرح اس کے خاوند کا بھائی بھی رضاعی چچا ہوتا ہے اور رضاعی چچا چونکہ حقیقی چچا کی مانند ہے اس لئے افلح تمہارے پاس شوق سے آئیں ان سے کوئی شرم و پردہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح دودھ پلانیوالی کے قرابت داروں کے ساتھ حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اس طرح اس کے خاوند کے قرابت داروں سے بھی حرمت رضاعت کا تعلق ہوجاتا ہے۔
Top