مشکوٰۃ المصابیح - نکاح کے اعلان اور نکاح کے خطبہ وشرط کا بیان - حدیث نمبر 3179
عن ابن مسعود قال : كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه و سلم معنا نساء فقلنا : ألا نختصي ؟ فنهانا عن ذلك ثم رخص لنا أن نستمتع فكان أحدنا ينكح المرأة بالثوب إلى أجل ثم قرأ عبد الله : ( يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ) (2/216) 3158 - [ 19 ] ( لم تتم دراسته ) وعن ابن عباس قال : إنما كانت المتعة في أول الإسلام كان الرجل يقدم البلدة ليس له بها معرفة فيتزوج المرأة بقدر ما يرى أنه يقيم فتحفظ له متاعه وتصلح له شيه حتى إذا نزلت الآية ( إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم ) قال ابن عباس : فكل فرج سواهما فهو حرام . رواه الترمذي
متعہ ابتداء اسلام میں جائز تھا
حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ ایک غزوہ کے موقع پر ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک جہاد تھے اور اس وقت ہمارے ساتھ ہماری عورتیں یعنی بیویاں اور لونڈیاں نہیں تھیں چناچہ جب عورتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم جنسی ہیجان سے پریشان ہوئے تو ( ہم نے کہا کہ کیا ہم خصی نہ ہوجائیں تاکہ جنسی ہیجان اور شیطان کے وسوسوں سے ہمیں نجات مل جائے) لیکن رسول کریم ﷺ نے ہم کو اس سے تو منع فرما دیا البتہ ہمیں متعہ کرنے کی اجازت دیدی چناچہ ہم میں سے بعض لوگ کپڑے کے معاوضہ پر ایک معینہ مدت کے لئے عورت سے نکاح (متعہ) کرلیتے تھے۔ اس کے بعد ابن مسعود نے یہ آیت پڑھی (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ ) 5۔ المائدہ 87) (اے ایمان والو! جن پاک چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے ان کو حرام نہ سمجھو) بخاری ومسلم)

تشریح
یہ حدیث متعہ کی اجازت پر دلالت کرتی ہے چناچہ ابتداء اسلام میں متعہ کی اجازت تھی مگر بعد میں یہ اجازت منسوخ ہوگئی اور اب متعہ کرنا حرام ہے جیسا کہ آگے آنیوالی حدیث سے بھی معلوم ہوگا اور پہلے بھی وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے متعہ کی اجازت کا منسوخ ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ حضرت ابن مسعود کا مذکورہ بالا آیت پڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت ابن مسعود بھی حضرت ابن عباس کی طرح متعہ کی مباح ہونے کے قائل تھے، لیکن حضرت ابن عباس کے بارے میں تو یہ ثابت ہوچکا ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اور وہ بھی متعہ کے حرام ہونے کے قائل ہوگئے تھے جیسا کہ آگے آنیوالی حدیث سے معلوم ہوگا اب رہی حضرت ابن مسعود کی بات تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بھی اس کے بعد اس سے رجوع کرلیا ہو اور وہ بھی متعہ کے حرام ہونے کے قائل ہوگئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں جواز متعہ کے منسوخ ہونے کا صریح حکم معلوم ہی نہ ہوا ہو اور اس وجہ سے وہ آخر تک جواز متعہ کے قائل رہے ہوں۔ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ متعہ کا جواز صرف ابتداء اسلام میں تھا اور اس وقت متعہ کی ایک صورت یہ ہوتی تھی کہ) جب کوئی مرد کسی شہر میں جاتا اور وہاں لوگوں سے اس کی کوئی شناسائی نہ ہوتی کہ جن کے ہاں وہ اپنے قیام وطعام کا بندوبست کرتا تو وہاں کسی عورت سے اتنی مدت کے لئے نکاح کرلیتا جتنی مدت اس کو ٹھہرنا ہوتا چناچہ وہ عورت اس کے سامان کی دیکھ بھال کرتی اور اس کا کھانا پکاتی یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (الا علی ازواجہم او ما ملکت ایمانہم) (حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ان دونوں یعنی بیوی اور لونڈی کی شرمگاہ کے علاوہ ہر شرمگاہ حرام ہے ( ترمذی) تشریح آیت کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے محفوظ رکھتے ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے لیکن جو لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں پر قناعت نہیں کرتے یا جو لوگ نکاح کے ذریعہ اپنی شرعی طور پر اپنی جنسی خواہش کی تسکین کا سامان نہیں کرتے بلکہ غیر عورتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں وہ دراصل حلال سے گزر کر حرام کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں جن کے لئے سخت ملامت ہے۔ علامہ طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے حضرت ابن عباس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ پرہیزگار بندوں کی تعریف بیان کی ہے کہ وہ عورتوں سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اپنی بیویوں اور اپنی لونڈیوں سے اجتناب نہیں کرتے بلکہ ان کے ذریعہ اپنے جنسی جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ متعہ کی صورت میں جو اس عورت پر تسلط حاصل ہوتا ہے وہ نہ تو بیوی ہوتی ہے اور نہ مملوکہ لونڈی ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ بیوی ہوتی تو اس کے اور اس کے مرد کے درمیان میراث کا سلسلہ ضرور ہوتا اور یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ متعہ کی عورت کے ساتھ میراث کا کوئی سلسلہ قائم نہیں ہوتا چونکہ وہ عورت محض چند روز یعنی ایک متعین مدت کے لئے اجرت پر اپنے نفس کو اس مرد کے حوالہ کرتی ہے۔ اس لئے وہ مملوکہ بھی نہیں ہوسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص متعہ کے طور پر کسی عورت سے جنسی تسکین حاصل کرتا ہے تو وہ ان لوگوں کے زمرہ میں نہیں ہے جن کی توصیف مذکورہ آیت بیان کر رہی ہے۔ امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے متعہ کرتا ہے تو وہ عورت اس کی بیوی نہیں بنتی اور جب وہ بیوی نہیں بنتی تو پھر لامحالہ یہ واجب ہوگا کہ وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو۔ شیعوں کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان کے نزدیک متعہ جائز ہے چناچہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ حضرت ابن عباس کے قول پر تو عمل کرتے ہوئے متعہ کو جائز کہتے ہیں۔ باوجودیکہ جواز متعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس کا اپنے قول سے رجوع کرنا ثابت ہوچکا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مسلک و عقیدہ کو ترک کرتے ہیں اور ان کے خلاف عمل کرتے ہیں جب کہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ جب حضرت علی نے یہ سنا کہ حضرت ابن عباس متعہ کو جائز کہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ابن عباس ایسا نہ کہو کیونکہ میں نے خود سنا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خیبر کے دن متعہ اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔
Top