متعہ کے بارے میں شیعوں کا مسلک
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ متعہ حرام ہے، لیکن نہ معلوم شیعہ کیوں اب بھی اسے جائز کہتے ہیں۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ شیعوں کی کتابوں میں تو انہی کی صحیح احادیث میں ائمہ سے متعہ کی حرمت منقول ہے مگر شیعوں کا عمل یہ ہے کہ وہ نہ صرف متعہ کے حلال ہونے پر اصرار کرتے ہیں بلکہ اس کے فضائل بھی بیان کرتے ہیں اور پھر مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ شیعہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ متعہ کو دراصل حضرت عمر نے حرام کیا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے حضرت عمر کو حرام کرنے کا کیا اختیار تھا ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ انہوں نے جس طرح دوسرے اسلامی احکام کی تبلیغ میں بڑی شدت کے ساتھ حصہ لیا ہے اسی طرح انہوں نے متعہ کی حرمت کے اعلان میں بھی بڑی شدومد کے ساتھ کوشش کی ہے۔ چناچہ ان کا آخری اعلان یہ تھا کہ اگر میں نے سنا کہ کسی نے متعہ کیا ہے تو میں اس کو زنا کی سزا دوں گا ان کے اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ اس وقت کی متعہ کی حرمت سے ناواقف تھے وہ بھی واقف ہوگئے لہذا حضرت عمر نے تو صرف اتنا کیا کہ رسول کریم ﷺ کے ایک حکم کی تبلیغ کردی اب اگر شیعہ یہ کہیں کہ متعہ کو حضرت عمر نے حرام کیا ہے تو اس کی ایک مضحکہ خیز الزام سے زیادہ کوئی اور اہمیت نہیں ہوگی۔ اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ اوطاس کے تین یوم کے لئے متعہ کی اجازت دی تھی پھر اس سے ہمیشہ کے لئے منع کردیا (مسلم)
تشریح
اوطاس ایک وادی کا نام ہے جو مکہ مکرمہ کے قریب طائف جانیوالے راستہ میں واقع ہے اور جس کے گرد وپیش قبیلہ ہوازن کی شاخیں آباد تھیں اس کو وادی حنین بھی کہتے ہیں جب رمضان المبارک ٨ ھ میں مکہ فتح ہوگیا اور اسلام کی طاقت نے گویا پورے عرب کے باطل عناصر کو حق کے سامنے سرنگوں کردیا تو اوطاس میں بسنے والے ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کو بڑی غیرت آئی اور انہوں نے پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ایک مرتبہ اسلام کے مقابلہ کی ٹھانی چناچہ شوال ٨ ھ میں ان قبیلوں کے لوگوں کے ساتھ اوطاس میں آنحضرت ﷺ کی قیادت میں وہ جنگ ہوئی جسے غزوہ حنین کہا جاتا ہے اور غزوہ اوطاس اور غزوہ ہوازن کے نام سے بھی اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو سر بلند کیا اور اسلامی لشکر کو فتح عطاء فرمائی اس غزوہ میں غنیمت کے طور پر مسلمانوں کو بہت زیادہ مال و اسباب ہاتھ لگا چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور تقریبا چالیس ہزار روپیہ کی مالیت کی چاندی پر مسلمانوں نے قبضہ کیا اور آنحضرت ﷺ نے یہ سارا مال غنیمت وہیں اوطاس میں مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ بہرحال متعہ کی تحلیل و تحریم دوسری مرتبہ اسی جنگ اوطاس کے موقع پر ہوئی ہے اور یہ جنگ چونکہ فتح مکہ کے فورًا بعد ہوئی ہے اس لئے اس موقع پر متعہ کی ہونیوالی تحلیل و تحریم کی نسبت کو فتح مکہ کے دن کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ گویا اس سے پہلے کی حدیث کی تشریح میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ متہ کی تحلیل و تحریم دوسری مرتبہ فتح مکہ کے دن ہوئی ہے تو وہاں فتح مکہ کے دن سے مراد فتح مکہ کے سال ہے، لہذا اب بات یوں ہوگی کہ دوسری مرتبہ متعہ کی تحلیل و تحریم فتح مکہ کے سال یعنی ٨ ھ میں جنگ اوطاس کے موقع پر ہوئی ہے۔