مشکوٰۃ المصابیح - عطایا کا بیان - حدیث نمبر 3036
عمری کیا ہے
ابتداء باب کے حاشیہ میں عمری کے معنی بیان کئے جا چکے ہیں چناچہ اس موقع پر بھی جان لیجیے کہ عمری کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ میں نے اپنا یہ مکان تمہیں تمہاری زندگی تک کے لئے دیا یہ جائز ہے اس صورت میں جب تک وہ شخص جس کو مکان دیا گیا ہے زندہ ہے اس سے وہ مکان واپس نہیں لیا جاسکتا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد وہ مکان واپس لیا جاسکتا ہے یا نہیں اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ عمری کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ کوئی شخص مثلا اپنا مکان کسی کو دے اور یہ کہے کہ میں نے اپنا یہ مکان تمہیں دیدیا جب تک تم زندہ رہو گے یہ تمہاری ملکیت میں رہے گا تمہارے مرنے کے بعد تمہارے وارثوں اور اولاد کا ہوجائے گا اس صورت کے بارے میں تمام علماء کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ یہ ہبہ ہے اس صورت میں مکان مالک کی ملکیت سے نکل جاتا ہے اور جس شخص کو دیا گیا ہے اس کی ملکیت میں آجاتا ہے اس شخص کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء اس مکان کے مالک ہوجاتے ہیں اگر ورثاء نہ ہوں تو بیت المال میں داخل ہوجاتا ہے۔ عمری کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ دینے والا بلا کسی قید وشرط کے یعنی مطلقا یہ کہے کہ یہ مکان تمہاری زندگی تک تمہارا ہے اس صورت کے بارے میں علماء کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا بھی حکم وہی ہے جو پہلی صورت کا حکم ہے چناچہ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے اور بعد اس کے وارثوں کا حق نہیں ہوتا بلکہ اصل مالک یعنی جس نے اس شخص کو دیا تھا کی ملکیت میں واپس آجاتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ دینے والا یوں کہے کہ یہ مکان تمہاری زندگی تک تمہارا ہے تمہارے مرنے کے بعد میری اور میرے وارثوں کی ملکیت میں آجائے گا اس صورت کے بارے میں بھی زیادہ صحیح یہی بات ہے کہ اس کا حکم بھی وہی ہے جو پہلی صورت ہے حنفیہ کے نزدیک یہ شرط کہ تمہارے مرنے کے بعد میری اور میرے وارثوں کی ملکیت میں آجائے گا فاسد ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ کسی فاسد شرط کی وجہ سے فاسد نہیں ہوتا۔ حضرت امام شافعی کا بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے لیکن حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ عمری کی یہ صورت ایک فاسد شرط کی وجہ سے فاسد ہے۔ عمری کے بارے میں حضرت امام مالک کا یہ قول ہے کہ اس کی تمام صورتوں میں بنیادی مقصد دی جانیوالی چیز کی منفعت کا مالک کرنا ہوتا ہے۔
Top