پانی نمک اور آگ دینے سے انکار نہ کرو
ام المؤمنین حضرت عائشہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! وہ کونسی چیز ہے جس کو دینے سے انکار کرنا درست نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانی نمک اور آگ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! پانی کا معاملہ تو مجھے معلوم ہے کہ یہ اللہ کی ایک ایسی عام نعمت ہے جو کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور چونکہ کیا انسان اور کیا حیوان ساری ہی مخلوق کی ضرورتیں اس سے وابستہ ہیں اس لئے اس سے منع کرنا بہت زیادہ تکلیف وضرر کا باعث بن سکتا ہے لیکن نمک اور آگ کی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ دونوں چیزیں پانی کے مثل نہیں ہیں اور بظاہربالکل حقیر وکمتر چیزیں ہیں جن کا دیا جانا اور نہ دیا جانا کیا حیثیت رکھ سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا حمیراء! ( یہ مت سمجھو کہ ان دونوں چیزوں کے دینے یا نہ دینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ) جس شخص نے کسی کو آگ دی تو گویا اس نے وہ تمام چیزیں بطور صدقہ دیں جو اس آگ پر پکائی گئیں اسی طرح جس نے کسی کو نمک دیا گویا اس نے وہ تمام چیزیں بطور صدقہ دیں جنہیں اس نمک نے ذائقہ دار بنایا اور پانی کی اہمیت تو تم جانتی ہو لیکن تمہیں یہ معلوم نہیں کہ جس شخص نے کسی کو اس جگہ کہ جہاں پانی ملتا ہو ایک بار پانی پلایا تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا اور جس شخص نے کسی کو اس جگہ کہ جہاں پانی دستیاب نہ ہوتا ہو ایک بار پانی پلایا تو گویا اس نے اس کو یعنی ایک مسلمان کو زندہ کردیا ( ابن ماجہ)
تشریح
حضرت عائشہ نے چونکہ پانی اہمیت اور اس کی کیفیت حال کو جاننے کا دعوی کیا تھا اس لئے آپ ﷺ نے ان کے دعوی کو روکنے کے لئے آخر میں پانی دینے اور پلانے کا ثواب اور اس کی فضیلت کو ذکر کرتے ہوئے گویا یہ ظاہر فرمایا کہ تمہیں صرف یہ تو معلوم تھا کہ پانی ایک عام ضرورت کی چیز ہونے کی وجہ سے ایک بڑی اہم نعمت ہے لیکن اس کے بارے میں یہ تفصیل کہ پانی دینے والے کا کیا درجہ ہوتا ہے اور اسے کتنا زیادہ ثواب ملتا ہے تم نہیں جانتی تھیں۔