مشکوٰۃ المصابیح - غیرآباد زمین کو آباد کرنے اور پانی کے حق کا بیان - حدیث نمبر 3031
وعن سمرة بن جندب : أنه كانت له عضد من نخل في حائط رجل من الأنصار ومع الرجل أهله فكان سمرة يدخل عليه فيتأذى به فأتى النبي صلى الله عليه و سلم فذكرذلك له فطلب إليه النبي صلى الله عليه و سلم ليبيعه فأبى فطلب أن يناقله فأبى قال : فهبه له ولك كذا أمرا رغبه فيه فأبى فقال : أنت مضار فقال للأنصاري : اذهب فاقطع نخله . رواه أبو داود وذكر حديث جابر : من أحيى أرضا في باب الغصب برواية سعيد بن زيد . وسنذكر حديث أبي صرمة : من ضار أضر الله به في باب ما ينهى من التهاجر
اپنی جائیداد کے ذریعے کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ
اور حضرت سمرہ بن جندب کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے کھجوروں کے چند درخت ایک انصاری (جن کا نام بعض علماء نے ملک بن قیس لکھا ہے) کے باغ میں تھے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اسی باغ میں رہتے تھے چناچہ جب سمرہ اپنے ان درختوں کی وجہ سے باغ میں آتے تو ان انصاری کو اس سے تکلیف ہوتی ایک دن وہ انصاری نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے سمرہ کو اپنی مجلس میں طلب کیا تاکہ ان سے یہ فرمائیں کہ وہ اپنے کھجور کے ان درختوں کو انصاری کے ہاتھ فروخت کردیں تاکہ ان درختوں کی وجہ سے انصاری کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ اس سے نجات پاجائیں لیکن سمرہ نے اپنے درختوں کو فروخت کرنے سے انکار کردیا پھر آپ ﷺ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ سمرہ اپنے ان درختوں کو انصاری کے ان درختوں سے بدل لیں جو کسی دوسری جگہ واقع تھے مگر سمرہ اس پر بھی تیار نہیں ہوئے تب آپ ﷺ نے سمرہ سے یہ فرمایا کہ اچھا اپنے درخت انصاری کو بطور ہدیہ دیدو تمہیں اس کا اجر بہشت کی نعمتوں کی صورت میں مل جائے گا۔ گویا آپ ﷺ نے بطور سفارش اور رغبت دلانے کے لئے یہ حکم دیا ( یا امرارغبہ کا ترجمہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سمرہ سے ترغیب کی ایک بات فرمائی یعنی اپنے درخت کو بطور ہدیہ دے دینے کا ثواب ذکر فرمایا) لیکن سمرہ نے اس سے بھی انکار کردیا آخر میں آپ ﷺ نے سمرہ سے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ تم واقعی اس انصاری کو ضرور تکلیف پہنچانا چاہتے ہو؟ اور جو شخص کسی کو ضرور تکلیف پہنچائے اس کا دفعیہ چونکہ ضروری ہے اس لئے آپ ﷺ نے انصاری سے فرمایا کہ تم جاؤ اور سمرہ کے درختوں کو کاٹ پھینکو (ابوداؤد)

تشریح
آنحضرت ﷺ نے حضرت سمرہ کو اپنے درختوں کو انصاری کے ہاتھ فروخت کردینے یا تبادلہ کرلینے اور ہبہ کرنے کا جو حکم دیا اور انہوں نے وہ حکم نہیں مانا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے وہ حکم بطریق وجوب نہیں دیا تھا کہ اس کا ماننا ضروری ہوتا بلکہ بطور سفارش تھا یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے جو آخری صورت حضرت سمرہ کے سامنے رکھی اسی میں ثواب کی ترغیب دلائی تھی۔ اگر آنحضرت ﷺ کے اس حکم کا تعلق وجوب سے ہوتا ہے کہ جس کو ماننا حضرت سمرہ کے لئے ضروری ہوتا تو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت سمرہ اتنی صفائی کے ساتھ انکار کردیتے بلکہ وہ ایک فرمانبردار ومطیع صحابی ہونے کے ناطے فورًا مان لیتے۔ اب رہی یہ بات کہ اگر آپ ﷺ نے یہ حکم بطریق وجوب نہیں دیا تھا بلکہ اس کا تعلق سفارش سے تھا تو پھر آپ ﷺ نے انصاری کو حضرت سمرہ کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم کیوں دیا؟ اس کا جاب بالکل صاف ہے کہ پہلے تو آپ ﷺ نے سفارش کے ذریعے اخلاقی طور پر حضرت سمرہ کو اس بات پر تیار کرنا چاہا کہ وہ اپنے درختوں ٍے دست کش ہوجائیں مگر جب سمرہ نے دست کشی سے انکار کردیا تو آپ ﷺ پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ سمرہ نے انصاری کے باغ میں عاریۃ درخت لگائے تھے مگر اب نہ وہ ان درختوں کو بیچتے ہیں نہ تبادلہ کرتے ہیں اور نہ ہبہ کرتے ہیں تو گویا وہ واقعۃ انصاری کو ضرور تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ انصاری کو اس ضرر و تکلیف سے نجات دلائی جائے اس لئے اس کی آخری صورت یہی رہ گئی تھی کہ آپ ﷺ ان درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیدیں۔ اور حضرت جابر کی حدیث (من احی ارضا) الخ بروایت حضرت سعید بن زید باب الغصب میں نقل کی جا چکی ہے اور حضرت ابی صرمہ کی حدیث من ضار اضر اللہ بہ الخ باب ما ینہی من التہاجر میں نقل کی جائے گی (یہ دونوں حدیثیں صاحب مصابیح نے یہاں نقل کر رکھی تھی۔
Top