مشکوٰۃ المصابیح - مساقات اور مزارعات کا بیان - حدیث نمبر 3006
وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من كانت له أرض فليزرعها أو ليمنحها أخاه فإن أبي فليمسك أرضه
اپنی زمین کو بے کار نہ چھوڑو
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس زمین ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس میں خود کاشت کرے یا خود کاشت نہ کرسکے) تو اپنے کسی بھائی کو عاریۃً دیدے اور اگر یہ دونوں ہی باتیں پسند نہ ہوں تو پھر چاہئے کہ اپنی زمین اپنے پاس رکھے ( بخاری ومسلم)

تشریح
شیخ مظہر فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے پیش نظر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے مال سے نفع حاصل کرے لہذا جس شخص کے پاس زمین ہو اسے چاہئے کہ وہ اس میں خود کھیتی باڑی کرے تاکہ اس سے پیداوار ہو اور اس کی وجہ سے اسے نفع ہو اور اگر کی وجہ سے وہ خود کاشت نہ کرسکتا ہو تو پھر وہ اس زمین کو اپنے کسی مستحق مسلمان بھائی کو عاریۃ دیدے تاکہ وہ اس میں محنت مشقت کر کے اپنا پیٹ بھرے اس صورت میں انسانی اخلاق و ہمدردی کا ایک تقاضہ بھی پورا ہوگا اور اسے ثواب بھی ملے گا لیکن اگر وہ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت پسند نہ کرے تو پھر اپنی زمین کو اپنے پاس رہنے دے یہ آخری حکم گویا ان دونوں صورتوں کو ترک کرنے اور مزارعت کو اختیار کرنے پر ازراہ تنبیہہ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص نہ تو اپنی زمین سے مالی فائدہ حاصل کرے کہ اس پر خود کاشت کرے اور نہ کسی مسلمان بھائی کو عاریۃ دے کر اس سے روحانی نفع حاصل کرے تو پھر بہتر یہی ہے کہ وہ اس زمین کو یوں ہی چھوڑ دے کسی کو بطور مزارعت نہ دے نیز اس میں ایسے لوگوں کے لئے بھی تنبیہ ہے جو اپنے مال سے نہ تو خود ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ دوسرے کو نفع پہچاتے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تو پھر چاہئے کہ اپنی زمین اپنے پاس رکھے کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص اس کی زمین عاریۃ قبول کرنے سے انکار کر دے تو اپنی زمین اپنے پاس رہنے دے اس صورت میں یہ حکم اباحت کے طور پر ہوگا۔
Top