مشکوٰۃ المصابیح - غصب اور عاریت کا بیان - حدیث نمبر 2984
وعن أمية بن صفوان عن أبيه : أن النبي صلى الله عليه و سلم استعار منه أدراعه يوم حنين فقال : أغصبا يا محمد ؟ قال : بل عارية مضمونة . رواه أبو داود
مستعار لی ہوئی چیز امانت کے حکم میں ہے
اور حضرت امیہ بن صفوان اپنے والد (صفوان) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حنین کی جنگ کے دن ان (صفوان) سے کئی زرہیں عاریۃً لیں انہوں نے پوچھا کہ اے محمد ﷺ کیا آپ ﷺ یہ زرہیں غصب کے طریقہ پر لے رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ عاریۃً لے رہا ہوں جو کہ واپس کردی جائیں گی (أبوداؤد)

تشریح
غزوۃ حنین کے موقع پر جب کہ آپ ﷺ نے کچھ زرہیں صفوان سے مستعار لیں تو چونکہ صفوان اسلام کی دولت سے بہرہ ور نہیں تھے اسی لئے انہوں نے آپ ﷺ کو زرہیں دیتے ہوئے جو سوال کیا وہ بظاہر حد ادب سے گرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں صفوان اسلام کی دولت سے مشرف ہوگئے تھے ؓ۔ حضرت شریح، حضرت نخعی حضرت سفیان ثوری اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ جو چیز مستعار لی جاتی ہے وہ مستعار لینے والے کے پاس بطور امانت ہوتی ہے کہ اگر وہ تلف وضائع ہوجائے تو اس کا بدلہ دینا واجب نہیں ہوتا ہاں اگر مستعار لینے والا اس چیز کو قصدًا ضائع کر دے تو پھر اس پر اس چیز کا بدل واجب ہوتا ہے لیکن حضرت ابن عباس حضرت ابوہریرہ حضرت امام شافعی اور امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع وتلف ہوجائے تو مستعار لینے اولے پر اس کا بدل یعنی اس چیز کی قیمت ادا کرنا واجب ہوتا ہے اسی لئے ان حضرات کے نزدیک لفظ مضمونۃ جو واپس کردی جائیں گی کے یہ معنی ہیں تلف ہوجانے کی صورت میں ان کا بدل ادا کیا جائے گا۔
Top