مشکوٰۃ المصابیح - غصب اور عاریت کا بیان - حدیث نمبر 2975
وعن قتادة قال : سمعت أنسا يقول : كان فزع بالمدينة فاستعار النبي صلى الله عليه و سلم فرسا من أبي طلحة يقال له : المندوب فركب فلما رجع قال : ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
جانور کا عاریۃ مانگ لینا جائز ہے
اور حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ایک دن (ایک دن اس خیال سے کہ کفار کا لشکر مدینہ کے قریب آگیا ہے) مدینہ میں گھبراہٹ اور خوف کی ایک فضا پیدا ہوگئی ہے۔ (یہ دیکھ کر) نبی کریم ﷺ نے حضرت طلحہ کا گھوڑا کہ جسے مندوب یعنی سست کہا جاتا تھا عاریۃً مانگا اور اس پر سوار ہو کر تحقیق حال کے لئے مدینہ سے باہر نکلے پھر جب آپ ﷺ واپس آئے تو فرمایا کہ میں نے خوف و گھبراہٹ کی کوئی چیز نہیں دیکھی ہے نیز میں نے اس گھوڑے کو کشادہ قدم یعنی تیز رفتار پایا ہے ( بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت ابوطلحہ کا گھوڑا پہلے بہت ڈھیلا اور سست رفتار تھا اسی واسطے اس کا نام ہی مندوب یعنی سست رکھ دیا گیا تھا مگر جب آنحضرت ﷺ اس پر سوار ہوئے تو آپ ﷺ کی برکت سے وہ گھوڑا بڑا چاق وچوبند اور تیز رفتار ہوگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی جانور کو عاریۃً مانگنا اور اسے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے نیز کسی جانور کو کسی نام سے موسوم کردینا بھی جائز ہے اسی طرح سامان جنگ کا نام رکھنا بھی جائز ہے۔ یہ حدیث جہاں آنحضرت ﷺ کی شجاعت وبہادری اور کمال جانبازی کو ظاہر کرتی ہے کہ جب دشمن کی فوج کے مدینہ کے قریب آجانے کے خوف سے پورے مدینہ میں اضطراب و گھبراہٹ کی ایک عام فضا پیدا ہوگئی تھی تو آپ ﷺ بالکل بےخوف ہو کر تحقیق حال کے لے تن تنہا مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے وہیں یہ حدیث اس بات کی بھی غماز ہے کہ دشمنوں کی ٹوہ لینی اور ان کے حالات پر مطلع ہونے کے لئے سعی کرنا ضروری ہے۔ نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی خوف و اضطراب کے موقع پر خوف کے خاتمہ کی خوشخبری لوگوں کو دینا مستحب ہے۔
Top