مشکوٰۃ المصابیح - غصب اور عاریت کا بیان - حدیث نمبر 2974
وعن جابر قال : انكسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم مات إبراهيم بن رسول الله صلى الله عليه و سلم فصلى بالناس ست ركعات بأربع سجدات فانصرف وقد آضت الشمس وقال : ما من شيء توعدونه إلا قد رأيته في صلاتي هذه لقد جيء بالنار وذلك حين رأيتموني تأخرت مخافة أن يصيبني من لفحها وحتى رأيت فيها صاحب المحجن يجر قصبه في النار وكان يسرق الحاج بمحجته فإن فطن له قال : إنما تعلق بمحجتي وإن غفل عنه ذهب به وحتى رأيت فيها صاحبة الهرة التي ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض حتى ماتت جوعا ثم جيء بالجنة وذلك حين رأيتموني تقدمت حتى قمت في مقامي ولقد مددت يدي وأنا أريد أن أتناول من ثمرتها لتنظروا إليه ثم بدا لي أن لا أفعل . رواه مسلم
حاجیوں کا سامان چرانے والے کا عبرتناک حشر
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا چناچہ آپ ﷺ نے لوگوں کو سورج گرہن کی نماز چھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھائی (یعنی دو رکعتیں پڑھیں اور ہر رکعت میں تین تین رکوع اور دو دو سجدے کئے) اور جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج پہلے کی طرح روشن ہوچکا تھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس چیز کا یعنی جنت اور دوزخ کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ میں آج اپنی اس نماز میں دیکھ لی ہے چناچہ دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا اور یہی وہ وقت تھا جب نماز کے دوران تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا تھا اور میں اس خوف سے پیچھے ہٹ گیا تھا کہ کہیں اس کی گرمی مجھ تک نہ پہنچ جائے میں نے اس وقت دوزخ میں خمدار لکڑی والے یعنی عمرو ابن لحی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اس میں اپنی انتڑیوں کو کھینچ رہا تھا یہ شخص اپنی خمدار لکڑی کے ذریعہ حاجیوں کا سامان چرایا کرتا تھا (جس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ وہ چلتے چلتے کسی کی کوئی چیز اپنی خمدار لکڑی میں الجھا لیتا تھا) اگر کوئی اس کی یہ حرکت دیکھ لیتا تو وہ یہ کہہ دیتا کہ یہ چیز اپنے آپ میری لکڑی میں الجھ آئی ہے اور اگر کوئی نہ دیکھ پاتا تو وہ اس چیز کو غائب کردیتا تھا۔ نیز میں نے اس وقت دوزخ میں اس بلی والی عورت کو بھی دیکھا جس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی جسے نہ وہ کچھ کھلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ حشرات الارض یعنی چوہے وغیرہ کھالے یہاں تک کہ وہ بلی مارے بھوک کے مرگئی۔ پھر میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا مگر پھر میں اپنی جگہ ٹھہر گیا اور میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ میں اس کے پھل توڑ لوں جسے تم بھی دیکھ لو لیکن میں نے سوچا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تاکہ تمہارے ایمان بالغیب میں رخنہ نہ پڑے) (مسلم)

تشریح
اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ جنت اور دوزخ عالم وجود میں آچکی ہیں اور موجود ہیں چناچہ اہل سنت کا یہی مسلک ہے دوم یہ کہ عذاب اور ہلاکت کی جگہ سے ہٹ جانا سنت ہے سوم یہ کہ بعض لوگ اس وقت بھی دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہیں اور چہارم یہ کہ تھوڑا سا عمل نماز کو باطل نہیں کرتا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نماز کے دوران جنت اور دوزخ کو دیکھ کر آگے بڑھے اور پیچھے ہٹے۔
Top