مشکوٰۃ المصابیح - غصب اور عاریت کا بیان - حدیث نمبر 2972
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يحلبن أحد ماشية امرئ بغير أذنه أيحب أحدكم أن يؤتى مشربته فتكسر خزانته فينتقل طعامه وإنما يخزن لهم ضروع مواشيهم أطعماتهم . رواه مسلم
کسی جانور کا دودھ مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہو
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے جانور کا دودھ اس کی اجازت یعنی اس کے حکم ورضا کے بغیر نہ دوہے کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرسکتا ہے کہ کوئی شخص اس کے خزانہ یعنی اس کے غلہ کو گودام میں آئے اور اس کا خزانہ گودام کھول دے یہاں تک کہ اس کا غلہ اٹھا لیا جائے اسی طرح جان لو کہ دوسروں کے جانوروں کے تھن ان کی غذائی ضرورت یعنی دودھ کی حفاظت کرتے ہیں۔ (مسلم)

تشریح
جانوروں کے تھن کو غلہ وغیرہ کے گودام سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح تم اپنے غلوں کو گوداموں میں بھر کر محفوظ رکھتے ہو اسی طرح دوسرے لوگوں کے جانور اپنے تھنوں میں اپنے مالک کی غذائی ضرورت یعنی دودھ کو محفوظ رکھتے ہیں لہذا جس طرح تم اس بات کو کبھی بھی پسند و گوارا نہیں کرسکتے کہ کوئی دوسرا شخص تمہارے گوداموں اور تمہارے خزانوں کو غیر محفوظ بن کر وہاں سے غلہ یا دوسری محفوظ اشیاء نکال لے اسی طرح تمہارا یہ فعل بھی جانوروں کے مالکوں کو کیسے گوارہ ہوسکتا ہے کہ تم ان جانوروں کے تھنوں سے دودھ نکال لو۔ حاصل یہ کہ تم دوسروں کے مال پر بری نگاہ نہ ڈالو اور دوسروں کے حقوق کو غصب نہ کرو تاکہ کوئی دوسرا تمہارے مال کو غصب نہ کرے۔ اور جس طرح تم اپنا مال غصب کیا جانا گوارہ نہیں کرسکتے اسی طرح کسی دورے کا مال خود غصب کرنا بھی گوارہ نہ کرو۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اکثر علماء نے اس ارشاد گرامی پر عمل کرتے ہوئے یہ فتوی دیا ہے کہ کسی کے جانور کا دودھ مالک کی اجازت کے بغیر دوہنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص بھوک سے بےحال ہو رہا ہو تو اس کے لئے اتنی اجازت ہے کہ وہ بقدر ضرورت کسی کے جانور کا دودھ پی لے مگر پھر اس کی قیمت ادا کرے۔ اگر اس کے پاس موجود ہو تو اسی وقت یہ قیمت دیدے ورنہ بعد میں جب بھی قادر ہو قیمت کی ادائیگی کر دے۔ ایک واقعہ اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ اپنی کسی زوجہ مطہرہ (یعنی حضرت عائشہ) کے ہاں قیام فرماتے کہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے (یعنی حضرت زینب یا حضرت صفیہ اور یا حضرت ام سلمہ نے) ایک رکابی بھیجی جس میں کھانے کی کوئی چیز تھی اسے دیکھتے ہی ان زوجہ مطہرہ نے کہ جن کے ہاں آپ ﷺ قیام فرما تھے ( یعنی حضرت عائشہ نے) خادم کے ہاتھ پر اس طرح مارا کہ وہ رکابی گر پڑی اور ٹوٹ گئی۔ نبی کریم ﷺ نے رکابی کے وہ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اکٹھا کئے اور پھر ان ٹکڑوں میں کھانے کی وہ چیز جمع کی جو رکابی میں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آگئی تھی بہرکیف آپ ﷺ نے کچھ دیر خادم کو روکے رکھا یہاں تک کہ جن زوجہ مطہرہ کے گھر آپ ﷺ قیام فرما تھے ( یعنی حضرت عائشہ ان کے ہاں سے دوسری رکابی مہیا کی گئی اور پھر آپ ﷺ نے اسی خادم کے ذریعہ ان زوجہ مطھرہ کے ہاں کہ جن کے ہاں رکابی ٹوٹ گئی تھی وہ صحیح وسالم رکابی بھیج دی اور وہ ٹوٹی ہوی رکابی ان زوجہ مطہرہ کے گھر رکھ لی جنہوں نے اس رکابی کو توڑا تھا ( بخاری) تشریح خادم غلام کو بھی کہتے ہیں اور لونڈی کو بھی چناچہ یہاں خادم سے مراد لونڈی ہی ہے کیونکہ حضرت عائشہ کے ہاں لونڈی ہی وہ رکابی اور اس میں کھانے کی کوئی چیز لے کر آئی تھی۔ جب وہ رکابی گر کر ٹوٹ گئی اور اس میں سے کھانے کی وہ چیز بھی زمین پر گرگئی جو اس رکابی میں تھی تو آنحضرت ﷺ نے نہ صرف رکابی کے ٹکڑوں کو اکٹھا کیا بلکہ کھانے کی اس چیز کو بھی نہایت احتیاط کے ساتھ جمع کیا اس فعل سے آپ ﷺ کے کمال تحمل انتہائی توضع اور ازواج مطہرات کے ساتھ آپ ﷺ کی خوش مزاجی اور عفو درگزر کے عالی جذبات ہی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ تمہاری ماں کو غیرت آگئی تھی یہ دراصل اس واقعہ کو سننے پڑھنے والوں سے آپ ﷺ کا خطاب عام ہے اس ارشاد کے ذریعہ گویا آپ ﷺ نے حضرت عائشہ کی طرف سے عذر بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ جو یہ اضطراری فعل صادر ہوا وہ درحقیقت اس غیرت کی بناء پر تھا جو ہر عورت کی جبلت وسرشت میں داخل ہے کہ کوئی بھی عورت خواہ وہ کتنے ہی اونچے مقام پر کیوں فائز ہو اپنی سوکن کے تئیں مخصوص رقیبانہ اور رشک آمیز جذبات و احساسات سے عاری نہیں ہوسکتی اور نہ کسی بھی عورت کے بس کی یہ بات ہے کہ وہ اپنی طبیعت اور اپنے نفس کو اس طبعی اور جبلی جذبہ سے محفوظ رکھ لے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تاکہ لوگ حضرت عائشہ کے اس فعل کو برائی پر محمول نہ کریں بلکہ یہ جان لیں کہ ان سے یہ فعل بتقاضائے بشریت سرزد ہوگیا تھا جس میں ان کے مقصد و ارادے یا کسی برائی کا قطعًا کوئی دخل نہیں تھا۔ قاضی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو اس باب میں نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ رکابی توڑ دینا ایک طرح کا غصب تھا کیونکہ اس سے ایک دوسرئے کا مال تلف ہوا اگرچہ اس کا سبب خواہ کچھ ہی رہا ہو۔ یا پھر یہ کہ کھانے کی جو چیز بھیجی گئی تھی وہ تو تحفہ کے طور پر تھی لیکن جس رکابی میں وہ چیز بھیجی گئی تھی وہ بطریق عاریت کے تھی اس لئے اس مناسبت سے یہ حدیث اس باب میں ذکر کی گئی ہے۔
Top