مشکوٰۃ المصابیح - شرکت اور وکالت کا بیان - حدیث نمبر 2959
وعن أبي هريرة قال : قالت الأنصار للنبي صلى الله عليه و سلم : اقسم بيننا وبين إخواننا النخيل قال : لا تكفوننا المؤونة ونشرككم في الثمرة . قالوا : سمعنا وأطعنا . رواه البخاري
انصار کے مال میں مہاجرین کی شرکت
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب مکہ سے مہاجرین مدینہ آئے تو انصار یعنی مدینہ کے لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں درختوں کو تقسیم نہیں کروں گا تم ہی لوگ ہماری یعنی مہاجرین کی طرف سے بھی محنت کرلیا کرو ہم پیداوار میں تمہارے شریک رہیں گے۔ انصار نے کہا کہ ہم آپ ﷺ کی اس بات کو بسروچشم قبول کرتے ہیں (بخاری)

تشریح
جب مکہ کے مسلمانوں پر ان کے وطن کی زمین تنگ کردی گئی اور اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم پر وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے تو چونکہ انہوں نے اپنا سارا سامان و اسباب اور مال ومتاع مکہ ہی میں چھوڑ دیا تھا اس لئے یہاں مدینہ میں ان کی معاشی زندگی کا تکفل مدینہ کے مسلمانوں نے کہ جنہیں انصار کہا جاتا ہے اپنے ذمہ لیا اس کی شکل یہ کی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کے درمین بھائی چارہ کرایا چناچہ انصار مدینہ نے اپنے تمام مال و اسباب میں مہاجرین کو برابر شریک بنا لیا۔ اسی موقع پر انصار نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو بھی ہمارے اور ہمارے مہاجربھائیوں کے درمیان تقسیم فرما دیجئے تاکہ ہم اپنے اپنے حصہ کے درختوں میں محنت مشقت کریں اور ان سے پھل پیدا کریں آپ نے ان سے فرمایا کہ میں درختوں کی تقسیم نہیں کروں گا بلکہ تمہیں لوگ ان درختوں کی دیکھ بھال کرو اور ان میں پانی وغیرہ دینے کی محنت ومشقت خود گوارہ کرلو کیونکہ تمہارے ان بیچارے مہاجرین بھائیوں سے یہ محنت ومشقت برداشت نہیں ہوگی۔ پھر جب پھل تیار ہوجائے گا تو میں تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دوں گا۔ آپ ﷺ کے اس فیصلہ کو انصار نے رضاء ورغبت اور بسروچشم قبول کرلیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی طرف سے محنت ومشقت کرنا مستحب ہے نیز یہ حدیث بھی شرکت کے صحیح ہو نیکی دلیل ہے۔
Top