مشکوٰۃ المصابیح - افلاس اور مہلت دینے کا بیان - حدیث نمبر 2950
وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله شروطهم
حرام چیزوں میں صلح ناجائز ہے
اور حضرت عمر بن عوف مزنی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے ہاں وہ صلح جائز نہیں ہے جو حلال چیز کو حرام یا حرام چیز کو حلال کر دے اور مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں ( یعنی مسلمان صلح وجنگ یا ان کے علاوہ دوسرے معاملات میں آپس میں جو شرطیں یعنی عہد و پیمان کرتے ہیں ان کی پاسداری و پابندی ضروری ہے) ہاں اس شرط کی پابندی جائز نہیں ہے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے (ترمذی ابن ماجہ)

تشریح
ناجائز صلح کی مثال یہ ہے کہ مثلًا کوئی شخص اس بات پر صلح کرے کہ میں بیوی کی سوکن سے جماع نہیں کروں گا یہ صلح درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا لازم آتا ہے جو بالکل جائز اور حلال ہے اسی طرح وہ صلح بھی جائز نہیں ہے جو حرام چیز کو حلال کر دے مثلًا کوئی اس بات پر صلح کرے کہ میں شراب پیوں گا یا سور کھاؤں گا اس میں ایک چیز کو اپنے لئے حلال سمجھ لینا ہے جو قطعًا حرام ہے۔ جس طرح کی پاسداری و پابندی جائز نہیں ہے اس کی مثال یہ ہے کہ مثلًا کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ شرط وعہد کرلے کہ میں اپنی لونڈی سے جماع نہیں کروں گا اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کی شرط ہے جو حلال ہے یا مثلًا کوئی اس بات کی شرط کرے کہ میں اپنی بیوی کی موجودگی میں اس کی بہن سے شادی کرلوں گا اس شرط وعہد کی پاسداری بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے لئے حلال قرار دے لینا لازم آتا ہے جو قطعًا حرام ہے۔ بظاہر یہ حدیث اس باب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لیکن چونکہ مؤلف کتاب نے اس حدیث کو یہاں نقل کیا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ خریدو فروخت کے معاملات میں مفلس ودیوالیہ ہوجانے کے وقت اکثر صلح و شرائط کی نوبت آتی ہے اس لئے اس مناسبت سے اس حدیث کو یہاں نقل کیا ہے
Top