مشکوٰۃ المصابیح - افلاس اور مہلت دینے کا بیان - حدیث نمبر 2942
وعن أبي هريرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يؤتي بالرجل المتوفى عليه الدين فيسأل : هل ترك لدينه قضاء ؟ فإن حدث أنه ترك وفاء صلى وإلا قال للمسلمين : صلوا على صاحبكم . فلما فتح الله عليه الفتوح قام فقال : أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن توفي من المؤمنين فترك دينا فعلي قضاؤه ومن ترك فهو لورثته
قرض دار کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت ﷺ کا اجتناب
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ ﷺ پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہوسکتا ہے تو آپ ﷺ اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر (آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ) مسلمانوں سے فرماتے کہ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے اور مشرکین و کفار سے جنگ کے بعد غنیمت کی صورت میں مال و زر میں وسعت و کشادگی نصیب ہوئی) تو آپ ﷺ ایک دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین ودنیا کے تمام امور میں مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا جو مسلمان اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض ہو ( اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکے) تو اس کے قرض کو ادا کرنے میں، میں ذمہ دار ہوں اور جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو اس مال سے اس کا قرض ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے (بخاری ومسلم)

تشریح
میں (دین ودنیا کے تمام امور میں) مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز و محبوب رکھیں آپ ﷺ کے حکم اور آپ ﷺ کی خواہش کو اپنے نفس کے حکم اور اپنے نفس کی خواہش پر مقدم رکھیں آپ ﷺ کے حق کو اپنی جانوں کے حق سے مقدم جانیں اور ان کے قلوب اپنی جانوں کی شفقت و محبت سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی شفقت و محبت سے لبریز ہوں اسی طرح آنحضرت ﷺ کی شان رحمت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان اپنی ذات پر جتنا شفیق و مہربان ہوسکتا ہے آنحضرت ﷺ اس کے حق میں اس سے کہیں زیادہ شفیق و مہربان ہیں ایک مسلمان کی جان اس کی عزت وآبرو اور اس کا دین آنحضرت ﷺ کو جتنا زیادہ عزیز و محبوب ہے اتنا خود اس کو نہیں ہے چناچہ مسلمانوں پر یہ مال و زبر کے دروازے کھول دیئے تو آپ ﷺ کو یہ ہرگز گوارا نہیں ہوا کہ اس مال و زر کو صرف اپنی ہی ذات تک محدود رکھیں بلکہ آپ ﷺ نے خود تو سختی و تنگدستی کی سابقہ حالت پر ہی قناعت کی اور سارا مال و زر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کردیا۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ اب جب کہ اللہ نے مال و زر کے خزانے میرے تصرف میں دے دئیے ہیں تو میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ مسلمانوں کا مال وعزت و آبرو کا تحفظ کروں لہذا مسلمانوں کے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال نہیں چھوڑ گیا ہے تو اس کا قرض میں ادا کروں گا۔ بعض حضرات تو یہ فرماتے تھے کہ آنحضرت ﷺ مردوں کے قرض کی ادائیگی بیت المال سے فرمایا کرتے تھے اور یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے لیکن بعض علماء کا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ ان کا قرض اپنے مال میں سے ادا کرتے تھے۔ اسی طرح بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ مردوں کی طرف سے قرض کی ادائیگی آنحضرت ﷺ پر واجب تھی اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ ان کا قرض ادا کرنا آپ ﷺ پر واجب نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ تبرعًا یعنی ازراہ احسان و شفقت ان کے قرض کی ادائیگی کرتے تھے۔
Top