مشکوٰۃ المصابیح - ذخیرہ اندوزی کا بیان - حدیث نمبر 2930
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : من احتكر على المسلمين طعامهم ضربه الله بالجذام والإفلاس . رواه ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان . ورزين في كتابه
غلہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے لئے موعظت وعبرت
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم یہ فرماتے تھے کہ جو شخص غلہ روک کر گراں نرخ پر مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جذام و افلاس میں مبتلا کردیتا ہے۔

تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص مخلوق اللہ اور خاص طور پر مسلمانوں کو تکلیف و نقصان میں ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جسمانی و مالی بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے اور جو شخص انہیں نفع و فائدہ پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے جسم و مال میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے۔ (٥) اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روک رکھا گویا وہ اللہ سے بیزار ہوا اور اللہ اس سے بیزار ہوا۔ تشریح وہ اللہ سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا وہ عہد توڑ ڈالا جو اس نے احکام شریعت کی بجاآوری اور مخلوق اللہ کے ساتھ ہمدردی و شفقت کے سلسلے میں باندھا ہے۔ اسی طرح اور اللہ اس سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے اس بدترین عمل کے ذریعہ مخلوق اللہ کی پریشانی و تکلیف کا سامان کیا تو اللہ نے اس پر سے اپنی حفاظت اٹھا لی اور اس کو اپنا نظر کرم و عنایت سے دور کردیا۔ (٦) اور حضرت معاذ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا بندہ برا ہے اگر اللہ تعالیٰ نرخوں میں ارزانی کرتا ہے تو وہ سنجیدہ ہوتا ہے اور اگر نرخوں کو گراں کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ (٧) اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو چالیس روز تک روکے رکھا اور پھر اسے اللہ کی راہ میں خیرات کردیا تو وہ اس کے لئے کفارہ نہیں ہوگا۔ تشریح یہ گویا اس شخص کے لئے وعید و سزا ہے جو چالیس دن تک گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو روکے رکھے کہ نہ تو اسے بازار میں لا کر بیچے اور نہ اس کے ذریعہ مخلوق اللہ کی غذائی ضروریات کو پورا کرے اور جو شخص اس سے کم مدت کے لئے احتکار کرے اس کے لئے بھی سزا ہے مگر اس سے کم درجہ کی۔
Top