مشکوٰۃ المصابیح - جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 2906
وعن ابن عمر قال : كنت أبيع الإبل بالنقيع بالدنانير فآخذ مكانها الدارهم وأبيع بالدراهم فآخذ مكانها الدنانير فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فذكرت ذلك له فقال : لا بأس أن تأخذها بسعر يومها ما لم تفترقا وبينكما شيء . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي والدارمي
ادائیگی قیمت میں سکہ کی تبدیلی جائز ہے
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نقیع میں (جو مدینہ کے قریب ایک جگہ ہے) اونٹوں کو دیناروں کے عوض بیچا کرتا تھا اور دیناروں کے بدلے درہم لے لیا کرتا تھا اسی طرح جب اونٹوں کو درہم کے عوض بیچا تو درہم کے بدلے دینار لے لیا کرتا تھا پھر جب میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم دینار کے بدلے درہم اور درہم کے بدلے دینار لے لو جب کہ نرخ اس دن کے مطابق ہو اور تم دونوں ایک دوسرے سے اس حال میں جدا ہو کہ تمہارے درمیان کوئی چیز نہ ہو ( ابوداؤد نسائی)

تشریح
درہم اور دینار دو سکوں کے نام ہیں درہم چاندی کا ہوتا ہے اور دینار سونے کا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی سے کوئی چیز روپے کے عوض خریدے اور روپے کے بدلے اشرفیاں دے دے یا کوئی چیز اشرفیوں کے عوض خریدے اور اشرفیوں کے بدلے روپے دے دے تو جائز ہے۔ اس دن کے نرخ کی قید استحبابی ہے یعنی مستحب و مناسب یہ ہے کہ اس دن کے نرخ کا لحاظ رکھا جائے ورنہ تو جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے یہ جائز ہے کہ جس نرخ سے چاہے لے۔ تمہارے درمیان کوئی چیز نہ ہو میں کوئی چیز سے مراد مبیع یا قیمت اور یا دونوں پر قبضہ نہ ہونا ہے مطلب یہ ہے کہ درہم و دینار کو آپس میں بدلنا بایں شرط جائز ہے جس مجلس میں خریدو فروخت کا معاملہ ہو اسی مجلس میں فریقین اپنی اپنی چیز پر قابض ہوجائیں تاکہ اس کے برخلاف ہونے کی صورت میں نقد کی بیع ادھار کے ساتھ لازم نہ آئے جو ربا کی ایک شکل ہو نیکی وجہ سے حرام ہے چناچہ حضرت شیخ علی متقی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب مکہ معظمہ میں اپنے خادم کو بازار بھیجتے تو اسی حدیث کے پیش نظر اسے بطور خاص یہ نصیحت کرتے کہ خبردار باہمی قبضہ کرنے میں معاملہ دست بدست کرنا درمیان میں فرق واقع نہ ہو۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ درہم سکہ خلقی ہو نیکی وجہ سے چونکہ غیر متعین ہے اس لئے اگر کوئی شخص دکاندار کو ایک درہم دکھا کر کہے کہ اس کے عوض فلاں چیز میرے ہاتھ بیچ دو اور پھر جب دکاندار وہ چیز اسے بیچ دے تو اس درہم کی بجائے دوسرا درہم دے دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ دونوں درہم مالیت میں یکساں ہوں
Top